Second Anglo-Afghan War part 4

Second Anglo-Afghan War part 4

افغانوں کی مسلسل شکستوں اور انگریزوں کے مقابلے میں اپنی بے بسی نے شیر علی کی صحت کو بری طرح متاثر کیا۔ محض چون، پچپن برس کی عمر میں بھی وہ انتہائی بوڑھے اور بیمار لگنے لگے تھے۔ اسی پریشانی کے عالم میں انہوں نے جلال آباد میں انگریز کمانڈر کو خط لکھ کر اطلاع دی کہ وہ اپنے بیٹے یعقوب خان کے حق میں تخت چھوڑ رہے ہیں۔ اس خط میں انہوں نے دھمکی دی کہ اب وہ روس اور یورپ کے دیگر ممالک میں جا کر لوگوں کو بتائیں گے کہ انگریزوں نے ان سے کیسا ذلت آمیز سلوک کیا ہے۔ یعنی وہ انگریزوں کو بدنام کریں گے۔

یہ خط لکھنے کے بعد شیر علی نے کابل چھوڑ دیا اور شمالی افغانستان کے شہر مزار شریف چلے گئے۔ وہاں انہوں نے روسیوں سے رابطے کئے اور ان سے درخواست کی کہ وہ انگریزوں کے مقابلے کیلئے روسی فوج افغانستان بھیجیں۔ لیکن روسیوں نے نہ صرف یہ کہ ان کی کوئی مدد نہیں کی بلکہ انہیں روس آنے سے بھی منع کر دیا۔ جب شیر علی کو روسیوں سے کوئی مدد نہ مل سکی تو ان کی مایوسی اتنی بڑھی کہ جان لیوا ثابت ہوئی۔ اکیس فروری اٹھارہ سو اناسی، ٹوئنٹی فرسٹ فروری ایٹین سیونٹی نائن کو مزار شریف میں ہی ان کا انتقال ہو گیا۔

انہیں ایک ایسی جگہ دفن کیا گیا جو افغانوں کیلئے بہت ہی قابلِ احترام ہے۔ مائی کیوریس فیلوز یہ جو نیلے گنبد والی مسجد آپ دیکھ رہے ہیں اسے حضرت علی مزار یا روضہ شریف بھی کہا جاتا ہے۔ یعنی مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ حضرت علیؓ کا ممکنہ مزار۔ لیکن آپ یقیناً جانتے ہیں کہ حضرت علیؓ کا مزار تو عراق کے شہر نجف میں بھی ہے۔ ہاں ہے لیکن ایک افغان لیجنڈ کے مطابق حضرت علی کے جسدِ خاکی کو کافی عرصہ بعد شمالی افغانستان لے آیا گیا تھا۔ یہاں ان کے تابوت کو ایک سفید اونٹ پر رکھ کر کھلا چھوڑ دیا گیا۔

یہ طے کیا گیا کہ جس جگہ یہ اونٹ خود رکے گا اسی جگہ مزار تعمیر ہو گا۔ پھر اونٹ موجودہ مزار والے مقام پر رک گیا اور یہیں مبینہ طور پر انھیں سپردخاک کر دیا گیا۔ یہ واقعہ لیکن خاص وعام کے علم میں نہیں تھا۔ پھر بارہویں صدی، ٹویلوتھ سنچری میں ایک افغان عالمِ دین کو خواب میں اس جگہ کی بشارت دی گئی جس کے بعد لوگ اس مقام کی زیارت کیلئے آنے لگے۔ کہا جاتا ہے کہ سلجوق سلطان احمد سنجار نے اس مقام پر مزار تعمیر کروایا اور اسے حضرت علی مزار کہا جانے لگا۔ اس عمارت کے گرد آباد ہونے والا شہر بھی بعد میں بسا اور اسی کی مناسبت سے مزارِ شریف کہلایا۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ مزار پندرہویں صدی کے ایرانی حکمران سلطان علی مرزا صفوی نے بنوایا تھا۔ مزار کی عمارت اپنی نیلی رنگت کی وجہ سے نیلی مسجد یا مسجدِ ازرق بھی کہلاتی ہے۔ بہت سے افغان یہ مانتے ہیں کہ نیلی مسجد میں اڑنے والے کبوتر اس مزار کی کرامت کی وجہ سے ہی سفید رنگت کے ہیں۔ حتیٰ کہ اگر کسی اور رنگ کا کبوتر یہاں آ جائے تو کچھ دن بعد وہ بھی سفید ہی ہو جاتا ہے۔ دوستو یہ ان کی لیجنڈز ہیں اور یہ بتانے کا مقصد یہ تھا کہ یہ نیلی عمارت والا مزار افغانوں کے نزدیک بہت ہی مقدس ہے۔

اسی مزار کے احاطے میں افغان امیر شیر علی کو دفن کیا گیا۔ شیر علی کی وفات کے بعد ان کے بیٹے یعقوب خان نے افغانستان کی حکومت سنبھال لی تھی۔ یعقوب خان نے حکومت سنبھالتے ہی ایک ایسا فیصلہ کیا جس نے افغانستان کو انگریزوں کے ہاتھوں ٹوٹنے سے بچا لیا۔ یہ فیصلہ کیا تھا؟ یعقوب خان نے افغان امیر بننے کے بعد انگریزوں سے رابطہ کیا اور ان کی شرائط پر صلح کیلئے تیار ہو گئے۔ جب انگریزوں نے دیکھا کہ یعقوب خان ان کی ہر شرط ماننے پر تیار ہیں تو انہوں نے افغانستان کو تقسیم کرنے کے پلین کو معطل کرتے ہوئے یعقوب خان سے معاہدے کی تیاری شروع کر دی۔

اس وقت تک برطانوی فوج جلال آباد سے آگے بڑھ کر گندامک قصبے میں پوزیشن لے چکی تھی۔ یہاں سے وہ کسی بھی وقت کابل کی طرف پیش قدمی کر سکتی تھی۔ گندامک وہی قصبہ ہے جہاں پہلی اینگلو افغان جنگ کے دوران کابل سے پسپا ہونے والی انگریز فوج کو آخری شکست ہوئی تھی۔ آٹھ مئی کو یعقوب خان اپنے چار سو درباریوں اور افسروں کے ساتھ مذاکرات کیلئے گندامک پہنچ گئے۔ یہاں انہوں نے انگریز افسروں سے ملاقات کی۔

یہ جو تصویر آپ دیکھ رہے ہیں یہ گندامک کے اسی وزٹ کی تصویر ہے جس میں یعقوب خان اپنے جنرلز اور انگریز افسروں کے ساتھ بیٹھے ہیں۔ ان افسروں میں یہ جو یعقوب خان کے دائیں جانب بیٹھے ہیں یہ لوئیس کواگناری ہیں۔ یہ وہی افسر ہیں جنہوں نے جنرل فیض سے علی مسجد کے قلعے میں ملاقات کی تھی۔ لوئیس کواگناری بعد میں کابل میں برطانوی مشن کے سربراہ بھی بنے۔

Part 5

About admin

Check Also

Hazara Wars in Afghanistan p6

Hazara Wars in Afghanistan p6

Hazara Wars in Afghanistan p6 He writes that the Hazara people always sided with foreign …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

MENU

Stv History