First Anglo-Afghan War part 1

First Anglo-Afghan War part 1

یہ اٹھارہ سو انتالیس، ایٹین تھرٹی نائن کی بات ہے کہ سندھ کے صحرا میں بہت سے برطانوی فوجی ایک درخت کی چھاؤں میں کھڑے تھے۔ شدید گرمی اور پیاس سے ان کا برا حال تھا۔ لیکن پینے کیلئے پانی موجود نہیں تھا، مگر ہاں ان کے پاس برانڈی کی ایک بوتل تھی۔ برانڈی وہ شراب ہے دوستو جو سردیوں میں جسم کو گرم رکھنے کیلئے پی جاتی ہے۔ گرمی میں اسے پینا اپنی موت کو دعوت دینے والی بات تھی۔ مگر دھوپ میں جھلستے گوروں نے یہی برانڈی حلق میں انڈیل لی۔ اب برانڈی نے اپنا اثر دکھانا تھا، کیونکہ نیچر تو اپنے اصول کے خلاف نہیں چلتی۔

سو ہوا یہ کہ جب ان کے پیچھے برطانوی فوج کے دیگر دستے پہنچے تو انھیں درخت کے نیچے اپنے برطانوی فوجی ساتھیوں کی لاشیں ملیں۔ برانڈی سے پیاس بجھانے والے زندگی کا چراغ بجھا بیٹھے تھے، ایک بھی زندہ نہیں بچا تھا۔ مائی کیورئیس فیلوز یہ اُس بلڈی کیمپین کی شروعات تھی جس کا آغاز چلچلاتی دھوپ کے جہنم میں اور انجام برف کی دلدل میں ہوا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ برطانیہ نے یہ خونی مہم آخر شروع کیوں کی تھی؟ وہ کس کا خوف تھا جس نے برطانیہ کو دنیا کے مشکل ترین جغرافیے میں لڑنے پر مجبور کر دیا؟ انگریزوں اور افغانوں کی پہلی جنگ کی کہانی کیا تھی؟

افغانستان کو دا گریو یارڈ آف ایمپائرز کیوں کہا گیا؟ دوستو انیسویں صدی میں ہندوستان انگریزوں کی ایسی کالونی تھا جس پر وہ جان چھڑکتے تھے۔ کیونکہ یہی علاقہ تو ان کی فوجی اور معاشی طاقت کا پاور ہاؤس تھا۔ انگریز یہاں سے فوج بھرتی کر کے پوری دنیا میں جنگیں جیتا کرتے تھے۔ فوجی مرکز اس طرح کہ برطانوی کمان میں ہندوستانی فوج نے چین، ترکی، فلسطین اور حتیٰ کہ افریقہ تک میں جنگیں لڑی تھیں۔ جب بھی برطانوی ایمپائر مشکل میں ہوتا تھا تو وہ ہندوستانی کالونی کی طرف ہی مدد کے لیے دیکھتا تھا۔

پہلی اور دوسری جنگِ عظیم میں انگریزوں کی فتح میں اہم ترین کردار بھی ہندوستانی فوجیوں ہی کا رہا تھا۔ آپ اس سے اندازہ کریں ساتھیو کہ پہلی جنگِ عظیم میں دس لاکھ سے زائد ہندوستانی فوجیوں نے حصہ لیا تھا۔ ان میں سے چوہتر ہزار، سیونٹی فور تھاؤزنڈ اس پرائی جنگ میں مارے گئے۔ دوسری جنگِ عظیم میں تئیس لاکھ ہندوستانی فوجی شریک ہوئے تھے۔ ان میں سے نواسی ہزار، ایٹی نائن تھاؤزنڈ ہلاک ہوئے۔ یہ تو تھی ملٹری مدد۔ اب ذرا اکانومی کو بھی دیکھیں۔ ہندوستان برطانوی پروڈکٹس کی بہت بڑی مارکیٹ تھا۔ برطانیہ ہندوستان سے خام مال جیسا کہ کپاس اور جوٹ وغیرہ سستے داموں امپورٹ کرتا تھا۔

اس کے بعد برطانوی فیکٹریوں میں اس خام مال سے تیار ہونے والی مصنوعات ہندوستان میں ہی دوبارہ فروخت کر دی جاتی تھیں۔ اس کے علاوہ ہندوستان کی زرخیز زمینیں انگریزوں کی خوراک کی ضروریات بھی پوری کرتی تھیں۔ بھارت کی مارکسٹ اکانومسٹ اُتسا پٹنائیک کی تحقیق کے مطابق برطانیہ نے ٹیکسز اور تجارت کے ذریعے ہندوستان سے ہزاروں ارب ڈالرز کمائے۔ سترہ سو پینسٹھ، سیونٹین سکسٹی فائیو سے انیس سو اڑتیس، نائنٹین تھرٹی ایٹ کے دوران ہندوستان سے پینتالیس ہزار ارب ڈالرز، فورٹی فائیو تھاؤزنڈ بلین ڈالرز کی دولت برطانیہ منتقل ہوئی۔

یعنی فورٹی فائیو ٹریلین ڈالرز۔ یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ انیسویں صدی میں برطانیہ اگر سپرپاور تھا تو وہ ہندوستان ہی کی وجہ سے تھا۔ ہندوستان کی اسی اہمیت کی وجہ سے انگریز اسے ”جیول اِن دا کراؤن” یعنی برطانوی تاج کا ہیرا کہا کرتے تھے۔ تو دوستو معاملہ یوں تھا کہ روس اور برطانیہ اس دور کی سپر پاورز تھے اور دونوں ہندوستان پر اپنا کنٹرول چاہتے تھے۔ روس سنٹرل ایشیا کے راستے اور خصوصاً افغانستان سے ہوتا ہوا کسی بھی وقت ہندوستان میں آ سکتا تھا۔

سو برطانیہ نے ہندوستان کو بچانے کے لیے ہندوستان اور روس کے درمیان افغانستان کو ایک ایسے بفر زون کی صورت میں دیکھنا شروع کیا جو روسی فوج کو روکنے کے لیے استعمال ہو سکے۔ وہ افغانستان کو ہر قیمت پر کنٹرول میں رکھنا چاہتے تھے کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ افغانستان بہانہ ہو گا اور ہندوستان نشانہ ہو گا۔ یہی اس دور کی گریٹ گیم تھی۔ اس گریٹ گیم میں جہاں برطانیہ روس کو روکنے کی کوشش کر رہا تھا وہاں روس بھی اپنی چال چل رہا تھا۔

Part 2

About admin

Check Also

Hazara Wars in Afghanistan p6

Hazara Wars in Afghanistan p6

Hazara Wars in Afghanistan p6 He writes that the Hazara people always sided with foreign …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

MENU

Stv History