First Anglo-Afghan War part 2

First Anglo-Afghan War part 2

اٹھارہ سو سینتیس، ایٹین تھرٹی سیون میں ایران نے روسیوں کی مدد سے افغانستان میں مداخلت کی اور ہرات کا محاصرہ کر لیا۔ روس کی اس حرکت پر برطانیہ پینک ہو گیا۔ انگریزوں نے ایران اور روس کو جنگ کی دھمکیاں دینا شروع کر دیں۔ برٹش رائل نیوی نے تو پرشیئن گلف میں ایک ایرانی جزیرے پر قبضہ کر کے طبلِ جنگ بجا بھی دیا۔ برطانیہ کی دھمکیوں کے آگے ایران اور روس نہ ٹک سکے اور ہرات سے پیچھے ہٹ گئے۔ ہرات کا محاصرہ ختم ہونے کے بعد انگریزوں نے طے کیا کہ ہندوستان کو بچانا ہے تو افغانستان کے بفر زون میں ایک ایسی حکومت ہونی چاہیے جو انگریزوں کے مفادات کا تحفظ کرے اور کسی صورت روس کی جھولی میں نہ گرے یعنی ایک کٹھ پتلی بادشاہ یا سربراہ۔

لیکن مسئلہ یہ تھا کہ افغان امیر دوست محمد خان انگریزوں کی کٹھ پتلی بننے کیلئے تیار نہیں تھے۔ وہ افغانوں کو انگریزوں اور روسیوں دونوں کے اثر سے آزاد رکھنا چاہتے تھے۔ سو انگریزوں نے افغانستان میں حکومت کی تبدیلی یا رجیم چینج کی کوششیں شروع کر دیں تا کہ وہاں اپنی مرضی کا ایک مہرہ لا کر بٹھایا جا سکے۔ دوستو انگریز افغانستان میں جس مہرے کو لانا چاہتے تھے وہ تھا احمد شاہ ابدالی کا پوتا شاہ شجاع۔ شاہ شجاع آپ جان چکے ہیں کہ پہلے بھی افغانستان کے بادشاہ رہے تھے لیکن اب وہ تخت تاج کھو کر برٹش پنجاب کے شہر لدھیانا میں آ چکے تھے۔

یہاں وہ انگریزوں کی پناہ میں تھے اور انھیں قائل کرتے تھے کہ وہ افغانستان میں بہت مقبول ہیں، کیونکہ احمد شاہ ابدالی کے پوتے ہیں۔ اس کے ساتھ انہوں نے افغانستان کی خارجہ پالیسی بھی انگریزوں کے مفادات کا خیال رکھتے ہوئے چلانے کا وعدہ کیا۔ سو یہ انگریزوں اور شاہ شجاع دونوں کا مفاد بن گیا کہ وہ ایک دوسرے کی افغانستان میں مدد کریں۔ لیکن دوستو انگریز یہ بات نہیں جانتے تھے کہ افغان شاہ شجاع سے محبت نہیں نفرت کرتے ہیں۔ اس کی دو بڑی وجوہات تھیں۔ ایک یہ کہ افغان سمجھتے تھے کہ شاہ شجاع نے پشاور کی جنگ میں سکھوں کی مدد کی تھی تاکہ وہ قندھار پر قبضے میں ان کی مدد کر سکیں۔

شاہ شجاع کی والدہ یوسف زئی پٹھان تھیں اور وادیِ پشاور کی رہنے والی تھیں۔ اسی لیے افغانوں میں یہ مشہور ہو چکا تھا کہ شاہ شجاع نے قندھار پر قبضے کے بدلے میں اپنی ماں کی سرزمین یعنی پشاور کو بیچ دیا ہے۔ شاہ شجاع کی بدنامی کی دوسری وجہ ان کا اخلاق بھی تھا۔ کیونکہ ان کے بارے میں یہ بھی مشہور ہو چکا تھا کہ انھوں نے سندھ کے علاقے شکار پور میں اپنی فوج کے ساتھ حملہ کیا لوٹ مار کی اور ایک سندھی عورت کا ریپ بھی کیا۔ افغان عوام اس کردار کے شخص کو اپنا لیڈر نہیں مان سکتے تھے۔

سو ایسی ہی وجوہات کی بنا پر اس وقت کے افغان اپنے امیر دوست محمد، کو کہیں بہتر انسان سمجھتے ہوئے اس کے ساتھ تھے۔ شاہ شجاع کے ساتھ وہ نہیں تھے۔ مگر اس بات کو انگریز نہیں جانتے تھے۔ انھوں نے اپنی طرف سے ایک زبردست سٹریٹیجی بنائی کہ وہ شاہ شجاع کے ساتھ اپنی انگریز فوج کابل کی طرف بھیجیں گے جو انھیں تخت پر بٹھا کر ہی واپس آئے گی۔ ان کا خیال تھا کہ سپر پاور کی آرمی کے سامنے بکھرے ہوئے افغان جنگجو بھلا کتنی دیر ٹھہر سکیں گے؟ لیکن دوستو یہی ان کی بھول تھی۔ اٹھارہ سو اڑتیس میں برطانوی فوج شاہ شجاع کو بادشاہ بنوانے کیلئے افغانستان پر حملہ آوور ہوئی تو کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ ایک ایمپائر،

گریویارڈ آف ایمپائرز میں دفن ہونے جا رہی ہے۔ افغانستان پر حملے کیلئے برطانوی فوج نومبر اٹھارہ سو اڑتیس، ایٹین تھرٹی ایٹ کے آخر میں موجودہ بھارتی پنجاب کے شہر فیروز پور میں جمع ہوئی۔ اسے فسٹ اینگلو افغان فار کہتے ہیں۔ اس وقت دریائے ستلج کے پار مشرق میں سارا پنجاب انگریزوں کے قبضے میں تھا۔ اسے آپ برٹش پنجاب بھی کہہ سکتے ہیں جبکہ دریائے ستلج کے مغربی کنارے والا پنجاب سکھوں کے کنٹرول میں تھا۔ سکھ پنجاب کے حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ تھے جو انگریزوں کے اتحادی تھے۔ تو اب برطانوی فوج فیروز پور سے افغانستان جانے کی تیاری کر رہی تھی۔

یہ فوج اس خوش فہمی کا شکار تھی کہ افغانستان پر حملہ تو بس ایک واک اوور ہے۔ فتح جھٹ پٹ ہو جائے گی، شاہ شجاع کو حکومت ملے گی، افغان عوام برطانوی فوج کا شکریہ ادا کریں گے اور یہ فوجی صحیح سلامت اپنے گھروں کو لوٹ آئیں گے۔ بس بات ختم۔ مگر تاریخ کا سبق یہ تھا کہ افغانستان میں اصل جنگ تو شروع ہی قبضے کے بعد ہوتی ہے۔ سو اپنی خوش فہمی میں مبتلا برطانوی فوجی جنگ سے زیادہ اپنے آرام کا خیال رکھ رہے تھے۔ فوجی افسروں نے اپنے ساتھ چالیس، چالیس ملازمین رکھ لئے تھے۔

Part 3

About admin

Check Also

Hazara Wars in Afghanistan p6

Hazara Wars in Afghanistan p6

Hazara Wars in Afghanistan p6 He writes that the Hazara people always sided with foreign …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

MENU

Stv History