First Anglo-Afghan War part 3

First Anglo-Afghan War part 3

انگریز فوج پندرہ ہزار جوانوں پر مشتمل تھی۔ ان میں سے ایک ہزار یورپین فوجی اور چودہ ہزار ہندوستانی سپاہی تھے۔ جبکہ ان پندرہ ہزار فوجیوں کیلئے اڑتیس ہزار، تھرٹی ایٹ تھاؤزنڈ خدمتگاروں کی فوج الگ سے بھرتی ہو گئی تھی۔ یعنی یہ کوئی تریپن ہزار، ففٹی تھری تھاؤزنڈ کا لشکر بن گیا تھا۔ اس فوج کا سامان تیس ہزار اونٹوں پر رکھا گیا جن میں تین سو اونٹوں پر تو صرف شراب کی بوتلیں لدی تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ یہ کوئی فوج نہیں کوئی بڑا سا تجارتی قافلہ ہے جس میں حفاظت کیلئے کچھ فوجی بھی ساتھ ہیں۔ اس فوج کو آرمی آف دا انڈس، دریائے سندھ کی فوج کا نام دیا گیا۔

مائی کیوریس فیلوز اس فوج کیلئے افغانستان پر حملے کا سب سے آسان راستہ موجودہ پاکستانی پنجاب سے گزر کر پشاور سے ہوتے ہوئے افغانستان جاتا تھا۔ اگر برطانوی فوج کو یہ آسان روٹ مل جاتا تو وہ بہت آسانی سے پشاور کے راستے خیبر پاس کو کراس کر لیتی اور پھر کابل یہاں سامنے ہی اس کے نشانے پر ہوتا۔ لیکن دوستو برطانوی فوج کو یہ آسان روٹ نہیں مل سکا۔ یہ سارا روٹ یعنی لاہور، پشاور اور خیبر پاس کے قریب جمرود تک کا علاقہ سکھ حکمران مہاراجہ رنجیت سنگھ کے کنٹرول میں تھا۔ انہوں نے افغانستان پر حملے کیلئے پنجاب کی سرزمین دینے سے انکار کر دیا۔

برطانوی فوجیوں کے اپنی حدود میں داخلے پر پابندی لگا دی۔ پنجاب کا راستہ بند ہونے کے بعد اب افغانستان پر حملے کا ایک ہی متبادل روٹ تھا۔ لیکن یہ روٹ پنجاب سے زیادہ مشکل اور طویل تھا۔ یہ روٹ تھا انڈین پنجاب سے راجستھان، وہاں سے سندھ کے شہر شکار پور اور پھر وہاں سے درہ بولان کے راستے کوئٹہ، پھر وہاں سے قندھار۔ قندھار سے انگریزوں کو پھر کابل تک پانچ سو کلومیٹر کا سفر مزید طے کرنا تھا۔ یعنی یہ کوئی آئیڈیل راستہ نہیں تھا لیکن رنجیت سنگھ کے انکار کی وجہ سے انگریزوں کے پاس کوئی اور چوائس تھی بھی نہیں۔ چنانچہ انہوں نے حملے کیلئے اسی روٹ کا انتخاب کر لیا۔

انگریزوں نے سندھ کے تالپور حکمرانوں اور بلوچ ریاست قلات کے خان آف قلات میر مہراب خان سے رابطے کئے۔ یہ رابطے کامیاب رہے۔ تالپوروں اور خان آف قلات نے افغانستان پر حملے کیلئے برطانوی فوج کو سندھ اور بلوچستان کی زمین استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔ خان آف قلات سے انگریزوں کی یہ ڈیل ہوئی تھی کہ انگریز انہیں پندرہ ہزار روپے سالانہ دیں گے۔ اس کے بدلے میں ریاست قلات انگریز فوج کو محفوظ راستہ اور خوراک مہیا کرے گی۔ تاہم میر مہراب خان انگریزوں کے مستقل دوست نہیں رہ سکے۔ بہت سی غلط فہمیوں، انگریزی فوج کے ذاتی مسائل اور بلوچ قبائل میں آپسی اختلافات کے باعث انگریزوں اور میر مہراب میں جھگڑے شروع ہو گئے۔

یہی وجہ تھی کہ بعد میں نومبر اٹھارہ سو انتالیس، ایٹین تھرٹی نائن میں انگریزوں سے ایک لڑائی کے دوران میر مہراب خان، جان کی بازی ہار گئے۔ آج انہیں بلوچ عوام میں شہید اور قومی ہیرو کا درجہ دیا جاتا ہے۔ بہرحال جس دور کی کہانی ہم آپ کو دکھا رہے ہیں اس وقت خان آف قلات نے انگریزوں کی مدد کرنے کی حامی بھر لی تھی۔ خان آف قلات سے معاہدے کے علاوہ انگریز، مہاراجہ رنجیت سنگھ سے بھی ایک رعایت حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔

وہ رعایت یہ تھی کہ رنجیت سنگھ شاہ شجاع کے بیٹے تیمور شاہ کو مسلمان سپاہیوں کی ایک چھوٹی سی فورس فراہم کریں گے۔ یہ فورس تیمور شاہ اور انگریز کرنل ویڈ کی کمان میں پشاور کے راستے افغانستان جائے گی۔ تاہم انگریزوں کی مرکزی فوج نے سندھ اور بلوچستان والے راستے سے ہی جانا تھا۔ تو بہرحال دوستو مختلف معاہدوں کے ذریعے انگریزوں نے افغانستان پہنچنے کے اس طویل اور مشکل راستے کی اجازت حاصل کر لی۔

Part 4

About admin

Check Also

Hazara Wars in Afghanistan p6

Hazara Wars in Afghanistan p6

Hazara Wars in Afghanistan p6 He writes that the Hazara people always sided with foreign …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

MENU

Stv History