First Anglo-Afghan War part 4

First Anglo-Afghan War part 4

فیروزپور میں انگریز فوج کی تیاریاں مکمل ہوتے ہی دسمبر اٹھارہ سو اڑتیس، ایٹین تھرٹی ایٹ میں یہ فوج شکار پور روانہ ہو گئی۔ لیکن دوستو ستم ظریفی دیکھئے کہ انگریز جس شخص کو کابل کے تخت پر بٹھانے کے لیے جا رہے تھے اس نے پہلے دن ہی ثابت کر دیا کہ وہ اس منصب کا اہل نہیں ہے۔ ہوا یہ کہ شاہ شجاع نے انگریزوں کا ساتھ دینے کیلئے اپنی چھے ہزار فوج الگ سے تیار کر لی تھی۔ انگریزوں نے شاہ شجاع کو اس فوج کے ساتھ کچھ عرصہ پہلے ہی سندھ کے شہر شکار پور بھیج دیا۔ مقصد یہ تھا کہ وہ وہاں رہ کر اپنی فوج کو جنگ کی پریکٹس کرائیں۔ بعد میں جب برطانوی فوج وہاں پہنچے تو اسے جوائن کر لیں۔ تو اس پلان کے مطابق شاہ شجاع اپنی فوج کے ساتھ شکار پور کی طرف روانہ ہو گئے۔

لیکن ہوا یہ کہ ان کا قافلہ راستہ بھٹک گیا۔ قافلہ شکار پور کے بجائے لاڑکانہ پہنچ گیا۔ یہاں شاہ شجاع کی فوج نے ایک بار پھر بڑے پیمانے پر لوٹ مار شروع کر دی۔ وہ اپنی فوج کو روکنے میں بری طرح ناکام رہے۔ اس واقعے سے شاہ شجاع کی پہلے سے داغدار شہرت کو مزید خراب کر دیا۔ لیکن انگریزوں نے اس واقعے کو جاننے کے بعد بھی اگنور کر دیا اور اپنی پیش قدمی جاری رکھی۔ فروری اٹھارہ سو انتالیس، ایٹین تھرٹی نائن میں برطانوی فوج شکار پور پہنچ گئی۔ شاہ شجاع اور ان کے چھے ہزار فوجی بھی اس دوران لاڑکانہ سے شکار پور پہنچ چکے تھے۔ وہ بھی اس لشکر میں شامل ہو گئے۔

یوں اس لشکر میں فوجیوں کی تعداد پندرہ ہزار سے بڑھ کر اکیس ہزار ہو گئی یہاں سے اس لشکر کو اب صحرائی علاقے میں تقریباً اڑھائی سو کلومیٹر کا سفر طے کر کے درہ بولان پہنچنا تھا اور پھر وہاں سے کوئٹہ اور پھر افغان علاقے قندھار۔ دوستو انگریزوں نے صحرا کے طویل سفر کے لیے قدم تو بڑھا دئیے تھے لیکن اس سفر کے لیے انھوں نے نہ تو مناسب ریسرچ کی تھی اور نہ ہی اس جغرافیے کے حساب سے انھوں نے پانی اور خوراک جمع کی تھی۔ سو نتیجہ یہ ہوا کہ صحرا کے تپتے جہنم میں ان کا پانی اور خوراک کا ذخیرہ ختم ہونے لگا۔

موسمِ گرما شدید ہو رہا تھا اور برطانوی فوج صحرا میں ٹریپ ہو کر رہ گئی تھی۔ دور دور تک پانی اور سبزے کا نام و نشان نہیں تھا۔ پھر تیز ہوا کے جھکڑ چلتے تو مٹی اور ریت اتنی اڑتی کہ فوجیوں کے حلق تک اتر جاتی۔ مطلب ان کا سانس لینا دوبھر ہو چکا تھا۔ دن بھر گرمی اور ریت کے طوفانوں سے لڑنے کے بعد جب فوج رات کو پڑاؤ کرتی تو خیموں سے پانی پانی کی پکار گونجتی۔ پیاس نے برطانوی فوجیوں کو نیم پاگل کر دیا۔ یہی وہ وقت تھا جب ایک درخت کے نیچے بہت سے ایسے سپاہیوں کی لاشیں ملیں جنہوں نے چلچلاتی دھوپ میں برانڈی سے پیاس بجھانے کی غلطی کی تھی۔

فوج کے ساتھ آئے ہوئے ملازمین کی حالت تو سپاہیوں سے بھی بدتر تھی۔ وہ پیاس بجھانے کیلئے جانوروں کا خون پینے اور پیٹ بھرنے کیلئے ان کی کھالیں تک پکا کر کھانے پر مجبور ہو گئے تھے۔ اس کے علاوہ راستے میں جو جھاڑ جھنکار نظر آتا وہ اسے بھی چٹ کر جاتے۔ چارے اور پانی کی کمی نے ہزاروں اونٹوں، گھوڑوں اور دوسرے جانوروں کی جان لے لی۔ سینکڑوں گھوڑے جو کمزور ہو کر چلنے کے قابل نہیں رہے تھے انہیں فوجیوں نے خود گولی مار کر کھا لیا۔ اسی وجہ سے فوج کے پاس بوجھ اٹھانے والے جانوروں کی بھی کمی ہو گئی اور بہت سا غیر ضروری سامان راستے میں ہی پھینک کر اسے آگ لگانا پڑی تاکہ وہ لٹیروں کے ہاتھ نہ لگ جائے۔

صحرا میں جگہ جگہ مسلح بلوچ خانہ بدوش گھوم رہے تھے جو غیر ملکی فوج کے بالکل بھی دوست نہیں تھے۔ انھیں جونہی موقع ملتا وہ برطانوی لشکر پر حملہ کرتے اور جو سامان ہاتھ آتا لوٹ کر صحرا میں غائب ہو جاتے۔ دن رات میں جب بھی برطانوی فوج غافل ہوتی وہ حملہ کر دیتے۔ برطانوی قافلے میں شامل سینکڑوں سویلینز ان کے ہاتھوں مارے گئے۔ بلوچوں اور گرمی سے لڑتے لڑتے جب برطانوی فوج درہ بولان میں داخل ہوئی تو بھی اس کی مشکلات کم نہیں ہوئیں آپ جانتے ہیں کہ درہ بولان ایک تنگ راستہ ہے جس کے دونوں طرف بلند اور بنجر پہاڑ ہیں۔ آج تو یہاں ریلوے ٹریک ہے لیکن اٹھارہ سو انتالیس، ایٹین تھرٹی نائن میں یہاں ریلوے ٹریک تھا نہ کوئی پختہ سڑک تھی۔

Part 5

About admin

Check Also

Hazara Wars in Afghanistan p6

Hazara Wars in Afghanistan p6

Hazara Wars in Afghanistan p6 He writes that the Hazara people always sided with foreign …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

MENU

Stv History