First Anglo-Afghan War part 7

First Anglo-Afghan War part 7

انگریز ابھی دیواریں توڑنے کی کوئی نئی تدبیر سوچ ہی رہے تھے کہ انہیں ایک افغان ہی کی مدد مل گئی۔ ہوا یہ کہ افغان امیر دوست محمد کاایک بھتیجا عبدالرشید خان جو کسی وجہ سے ان سے ناراض تھا اس نے انگریزوں سے ہاتھ ملا لیا۔ اس نے انگریزوں کو بتایا کہ غزنی کا کابل گیٹ جو کہ کابل شہر کی طرف تھا وہ اس قلعے کا ویک پوائنٹ ہے۔ وجہ یہ تھی کہ افغانوں نے ہر دروازے کے پیچھے رکاوٹیں کھڑی کر رکھی تھیں تاکہ اگر یہ دروازے، گیٹس ٹوٹ بھی جائیں تو بھی انگریز فوری طور پر اندر داخل نہ ہو سکے۔ لیکن افغانوں نے کابل گیٹ کو خالی چھوڑ دیا تھا تاکہ کابل کی طرف سے کوئی امدادی فوج آئے تو وہ آسانی سے شہر میں داخل ہو سکے۔ یعنی وہ دروازہ صرف اندر سے بند تھا اس کے پیچھے رکاوٹیں نہیں تھیں۔

عبدالرشید خان کی یہ انٹیلیجنس معلومات بہت اہم تھیں۔ انگریزوں نے اس کا بھرپور استعمال کیا۔ چند برطانوی فوجی رات کے تاریکی میں افغانوں کی جزایل گنز سے بچتے بچاتے اس دروازے کے قریب پہنچے اور بارود نصب کر دیا۔ جب اس بارود کو دھماکے سے اڑایا گیا تو دروازہ اور اس کے اردگرد کی دیواروں کے کچھ حصے بھی زمین پر آ گرے۔ ان دیواروں پر اونگھتے ہوئے محافظ بھی چیختے ہوئے نیچے گرے۔ پھر وہ ملبے تلے دب کر ہمیشہ کیلئے خاموش ہو گئے۔ دروازے کے تباہ ہوتے ہی انگریز فوج نے قلعے میں داخل ہونا شروع کر دیا۔ لیکن یہ کام بھی آسان ثابت نہیں ہوا۔ دروازہ تباہ ہوتے ہی شہر کے دوسرے حصوں سے سینکڑوں افغان سپاہی دھماکے والی جگہ پہنچ گئے۔

انہوں نے انگریزوں اور ان کے ہندوستانی فوجیوں پر حملہ کر دیا اور دست بدست لڑائی شروع ہو گئی۔ دو گھنٹے تک انگریز، ہندوستانی اور افغان سپاہی ایک دوسرے کو خاک و خون میں نہلاتے رہے۔ افغانوں نے دیواروں سے دشمن پر پتھر بھی برسائے اور آخر وقت تک انہیں روکنے کی کوشش کرتے رہے۔ تاہم انگریز سپاہی، افغان دستوں کو پیچھے دھکیل کر شہر میں داخل ہو گئے۔ لیکن افغان فوجیوں نے پھر بھی ہتھیار نہیں ڈالے بلکہ گھروں میں مورچے بنا کر انگریزوں پر گولیاں برسانے لگے۔ یوں غزنی کا ہر گھر، ہر گلی کوچہ میدانِ جنگ بن گیا۔

انگریزوں کو شہر کے ایک، ایک انچ پر قبضے کیلئے لڑنا پڑا۔ تاہم افغان محافظوں کی یہ دلیرانہ مزاحمت کسی کام نہ آئی۔ آخر میں میدان انگریزوں کے ہاتھ رہا۔ مزاحمت کرنے والے سبھی افغان سپاہی انگریزوں کے ہاتھوں مارے گئے یا گرفتار ہوئے۔ بچے کھچے سپاہی رسیوں کی مدد سے شہر کی دیواروں سے کود کر فرار ہو گئے۔ اب غزنی پر برطانوی پرچم، یونین جیک لہرا رہا تھا۔ لیکن اس فتح کے بعد برطانوی فوجی بھی آپے سے باہر ہو گئے۔ انہوں نے گھروں میں گھس کر لوٹ مار کی اور سو کے لگ بھگ سویلینز کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا۔

غزنی پر برطانوی قبضے کی اطلاع جب دوست محمد کو ملی تو وہ سمجھ گئے کہ اب کابل کا دفاع مشکل ہو گا۔ غزنی کابل کے دفاع کی فرنٹ لائن تھا اور اب یہ فرنٹ لائن ٹوٹ چکی تھی۔ دوست محمد نے کابل کو بچانے کی آخری کوشش کی اور انگریزوں کو پیغام بھیجا کہ وہ شاہ شجاع کو اپنا بادشاہ تسلیم کرنے پر تیار ہیں شرط یہ ہے کہ انہیں یعنی دوست محمد کو شاہ شجاع کا وزیراعظم بنا دیا جائے۔ دیکھا جائے تو یہ بہت بڑی پیشکش تھی۔ لیکن انگریزوں کو دوست محمد پر اعتبار نہیں تھا۔ شاید ان کا خیال تھا کہ دوست محمد وزیراعظم بن گئے تو اصل اقتدار انہی کے ہاتھ میں رہے گا۔ انگریز نہیں چاہتے تھے کہ ان کا مہرہ شاہ شجاع ایک بے اختیار حکمران ثابت ہو۔

چنانچہ انہوں نے دوست محمد کی پیشکش ٹھکرا دی۔ لیکن ایسا کرنا انگریزوں کی بہت بڑی غلطی تھی۔ انہوں نے اس جنگ کو اپنی فتح پر ختم کرنے کا ایک سنہری موقع گنوا دیا تھا۔ انگریزوں کے انکار کے بعد دوست محمد کے پاس جنگ جاری رکھنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا۔ وہ فوری طور پر تو انگریزوں کے ٹڈی دل کو نہیں روک سکتے تھے۔ چنانچہ انہوں نے اور ان کے ساتھیوں نے اپنے گھوڑوں کا رخ کابل کے شمال مغرب کی طرف موڑ لیا اور تقریباً ایک سو اکاسی، ون ایٹی ون کلومیٹر دور بامیان کے علاقے میں چلے گئے۔ یہاں سے پھر وہ بخارا کی طرف پسپا ہو گئے تاکہ زیادہ سے زیادہ فوج جمع کر کے کابل واپس آ سکیں۔

ان کی غیر موجودگی میں چھے یا سات اگست کو شاہ شجاع برطانوی فوج کے ساتھ کابل میں داخل ہو گئے اور اپنی بادشاہت کا اعلان کر دیا۔ شاہ شجاع سفید گھوڑے پر سوار، ہاتھوں میں سونے کے بریسلٹ پہنے کابل میں داخل ہوئے۔ ان کے اردگرد انگریز گھڑسوار دستے چل رہے تھے۔ لیکن کابل میں جو منظر انہوں نے دیکھا اس نے ایک بار پھر سب کو حیران کر دیا۔ کابل کے شہری یہ منظر دیکھنے کیلئے جمع تو ہو گئے لیکن سارا ہجوم خاموش تھا۔ افغان عوام کے چہروں پر غیرملکی فوج اور شاہ شجاع کیلئے نفرت اور دشمنی کی تحریر صاف پڑھی جا سکتی تھی۔

بندوقوں والوں کے سامنے وہ کچھ کہہ تو نہیں پا رہے تھے لیکن دلوں میں غصے کا لاوا ابل رہا تھا۔ قندھار میں تو پھر بھی ہجوم نے پہلے دن شاہ شجاع کا رسمی سا استقبال کیا تھا لیکن کابل میں جو منظر تھا اسے دیکھ کر سمجھنے والے سمجھ گئے تھے کہ یہ کمپنی نہیں چلے گی۔ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ کابل میں انگریزوں کی وکٹری پریڈ میں رنجیت سنگھ نے بھی حصہ لیا تھا۔ لیکن یہ حقیقت نہیں ہے۔ جب برطانوی فوج فیروز پور میں جمع ہوئی تھی تو رنجیت سنگھ انگریزوں کے اتحادی کی حیثیت میں وہاں گئے تھے۔ انہوں نے وہاں برطانوی فوج کی پریڈ بھی دیکھی تھی۔

لیکن جون اٹھارہ سو انتالیس ایٹین تھرٹی نائن میں جب برٹش آرمی ابھی غزنی بھی نہیں پہنچی تھی تو رنجیت سنگھ کی موت ہو چکی تھی۔ مائی کیوریس فیلوز انگریزوں نے بندوق کے زور پر شاہ شجاع کو بادشاہ تو بنوا دیا تھا لیکن اس کے بعد برطانوی فوج کی تقدیر دو ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں چلی گئی جن کا ہر فیصلہ تباہ کن ثابت ہوا۔ یہ کون لوگ تھے اور ان کے فیصلے کیا تھے؟ جب دوست محمد اور انگریزوں کا سامنا ہوا تو کیا ہوا؟ افغان قبائلی سرداروں نے قرآن پر کیا حلف اٹھایا؟ افغانستان کے برف زاروں میں برطانوی فوج پر کیا بیتی؟ افغانوں اور انگریزوں کی جنگ اصل میں کون جیتا؟

Part 1

About admin

Check Also

Victory of the Afghans in the Battle of Maiwand p6

Victory of the Afghans in the Battle of Maiwand p6

Victory of the Afghans in the Battle of Maiwand p6 The ruler of his will …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

MENU

Stv History