History of Afghanistan Part 2 Urdu

History of Afghanistan Part 2 Urdu

جیسے آج فوجی چھاؤنیاں قائم کی جاتی ہیں۔ان کے حکم پر یونانی فوج نے سردریا کے کنارے پر فوج کے لیے ایک بڑا قلعہ تعمیر کرنا شروع کر دیا۔یہ وہ جگہ ہے دوستو جہاں آج تاجکستان کا شہر خوجند آباد ہے۔اسکندرِ اعظم نے اس علاقے کو الیگزانڈریا اسکیٹ یعنی سب سے دور الیگزانڈریا کا شہر یہ نام دیا تھا۔یہ قلعہ ہی سکندر اعظم کے لیے دوستو مسائل کا پیش خیمہ ثابت ہوگیا۔

وہ اس لیے کہ افغان قبائل اب تک ہخامنشی سلطنت کے زیراثر ایک خودمختار حیثیت میں رہتے تھے۔داریوس بھی ان پر اپنا حکم نہیں چلاتے تھے۔سکندر اعظم کو چیلنج نہ کرنے والے یہ افغان اور سیتھیئن قبائل یہ سمجھ رہے تھے کہ یونانی حکمران بھی کچھ دیر بعد حملہ کر کے واپس چلے جائیں گےاور یہ علاقے اپنی خودمختاری پہلے کی طرح ہی برقرار رکھ سکیں گے۔لیکن جب سردریا پر سکندراعظم نے قلعے کی تعمیر شروع کروائی تو ان سب کو لگنے لگا کہ یہ یونانی لوگ یہاں سے جانے کے لیے نہیں بلکہ رہنے کے لیے آئے ہیں۔اب یہ بات انھیں کسی طرح گوارا نہیں تھی

سو ان کے خلاف افغانوں نے بغاوت شروع کر دی۔اور اس بغاوت کو لیڈ کیا اس افغان جنگجو نے جس نے اپنے کمانڈر بیسس کو گرفتار کر کے سکندر اعظم کے سامنے پیش کیا تھا۔یعنی کمانڈر سپیٹا مینیز نے۔انہوں نے یونانیوں کے اس اقدام کو مقامی قبائل کی خود مختاری پر حملہ سمجھتے ہوئے ان کی آزادی پر ایک وار سمجھتے ہوئے ہتھیار اٹھا لئے۔اس بغاوت میں افغان، سینٹرل ایشیا کے لوگ اور سیتھیئن قبائل جو سر دریا کے پار رہتے تھے وہ سبھی شامل تھے۔

انھوں نے سمرقند کے قریب یونانی فوج پر پہلا بڑا حملہ کیا اور ان کے بہت سے فوجیوں کوموت کے گھاٹ اتار دیا۔یونانی فوج پر اس پہلے بڑے حملے کے ساتھ ہی سر دریا سے لے کر بلخ تک بغاوت کے شعلے بھڑک اٹھے۔دیہات کے ساتھ ساتھ شہری علاقوں میں بھی لوگوں نے ہتھیار اٹھا لئے اور اپنے اپنے علاقوں میں تعینات یونانی اہلکاروں یا سرداروں کو قتل کرنا شروع کر دیا۔سر دریا کے قریب موجود ایک قدیم شہر سائروپولس اور اس کے قریبی قصبے بغاوت میں ان کے ساتھ شامل ہو گئے۔

یہاں کے شہریوں نے اپنے علاقوں میں تعینات یونانی فوجیوں کو قتل کر دیا اور قلعوں کے دروازے بند کر لئے۔اس کے علاوہ بھی ہزاروں کی تعداد میں باغیوں نے پہاڑوں اور جنگلوں میں اپنے نئے ٹھکانے بنا لئے۔باغی اتنے ایکٹیو ہوئے کہ انھوں نے سمرقند اور الیگزانڈریا اسکیٹ کے درمیان یونانی فوج کا گزرنا ہی مشکل بنا دیا تھا۔اسکندرِ اعظم بھی ظاہر ہے خاموش بیٹھنے والے تو نہیں تھے،وہ ایک منجھے ہوئے کمانڈر تھے اور انہوں نے اس چیلنج کا بھرپور جواب دیا۔

اسکندرِ اعظم نے پہاڑوں اور جنگلوں میں باغیوں کے ٹھکانوں پر حملے شروع کر دیئے۔لیکن انھیں دوستو ہر قلعے سے اتنی مزاحمت ملتی تھی جس کی وہ کبھی بھی توقع نہیں کر رہےتھے۔یہاں تک کہ ایک پہاڑی قلعے پر حملہ کرتے ہوئے وہ خود بھی دشمن کے تیروں کی زد میں آ گئے۔ایک تیر ان کی ٹانگ میں گہرا لگا اور انہیں ایک زخم دے گیا۔مورخ پلوٹورچ لکھتے ہیں کہ اسکندر اعظم کی ٹانگ کی ہڈی اس بری طرح ٹوٹی کہ ہڈی کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو جسم سے باہر نکالنا پڑا۔

یونانی فوج نے جب اپنے سپہ سالار کو زخمی دیکھا تو وہ آگ بگولا ہو گئی۔انھوں نے قلعے کے محافظوں اور گرفتار سپاہیوں کا قتلِ عام شروع کر دیا۔لیکن یونانی کی یہ سوچ کہ بیہمانہ قتلِ عام سے افغان باغیوں کے حوصلے پست ہو جائیں گے بالکل غلط تھی۔یونانیوں کی ایسی ہر کارروائی کے ساتھ افغان باغیوں کے حوصلے اور ان کا جذبہ پروان چڑھ رہا تھا۔اب صورتحال یہ تھی کہ اسکندرِ اعظم خود زخمی تھے اور چلنے پھرنے سے معذور تھے۔

۔

About admin

Check Also

Victory of the Afghans in the Battle of Maiwand p6

Victory of the Afghans in the Battle of Maiwand p6

Victory of the Afghans in the Battle of Maiwand p6 The ruler of his will …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

MENU

Stv History