History of Afghanistan Part 3 Urdu
ان کی فوج نے سائرو پولس اور اس کے قریبی قصبوں کا محاصرہ تو کر لیا تھالیکن ہر جگہ سے انہیں شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔اسکندرِ اعظم بستر سے لگے تھے لیکن میدانِ جنگ کی رپورٹس برابر لے رہے تھےاور اپنے فوجیوں کو اسٹریٹجی سمجھاتے بھی جا رہے تھے۔ان کے حکم پر یونانی فوج نے سائرو پولس کے قریب ایک ایک قصبے کا الگ الگ محاصرہ کیااور پھر ہر قصبے کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیا۔
یونانی فوج نے یہ طریقہ اپنایا کہ جب وہ کسی بھی قصبے پر قبضہ کرتے تو اس کے تمام مردوں کو قتل کر دیتے اور خواتین کو لونڈیاں بنا کر ساتھ لے آتے۔سائرو پولس شہر میں موجود باغی اپنے قصبوں کا یہ انجام دیکھ رہے تھےلیکن انہوں نے پھر بھی ہتھیار نہیں ڈالے بلکہ یونانی فوج کے خلاف نئی ٹیکٹکس اپنانا شروع کر دیں
انہوں نے یونانیوں کو دھوکہ دینے کیلئے یہ طریقہ کار اختیار کیاکہ وہ اپنے لوگوں کو سفید پرچم دے کر گفتگو کے بہانے یونانی فوجیوں کے پاس بھیجتے یونانی فوجیوں کو قریب بلاتے اور پھر انہیں موت کے گھاٹ اتار دیتے۔اسی طرح کافی عرصہ گزرتا گیا اور ایک دن سکندر یونانی صحت مند ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے۔اب وہ دوبارہ لڑائی میں حصہ لینے کے لیے تیار تھے۔صحت یاب ہوتے ہی انہوں نے سائرو پولس پر قبضے کی منصوبہ بندی شروع کر دی۔
انہوں نے دیکھا کہ سائرو پولس کے قلعے کی دیوار کے نیچے ایک نکاسی کے نالے جیسا راستہ تھاجہاں سے پانی شہر کے اندر جاتا تھا۔اسکندرِ اعظم نے اپنے کچھ ساتھیوں کو ساتھ لیا اور کمانڈوزکی طرح ایکشن کرتے ہوئےاس پانی میں تیر کر قلعے میں داخل ہو گئے۔اس کے بعد انہوں نے شہر کا ایک دروازہ کھول دیا اور یونانی فوج اندر داخل ہو گئی۔پھر شہر میں انھوں نے ہر سامنے آنے والے شخص کو قتل کرنا شروع کر دیا۔شہر کے پندرہ ہزار محافظوں میں سے بہت کم زندہ بچے۔
شہر میں موجود آخری باغی بھی یونانیوں سے جان توڑ کر لڑا۔شہر کے ہر گلی کوچے اور چھت سے تیروں اور پتھروں کی بارش ہو رہی تھی اور یونانی فوج کی پیش قدمی مشکل سے مشکل تر ہوتی جا رہی تھی۔اسکندر اعظم نے ایک بار پھر بہادری دکھانے کی کوشش کی اور لڑائی میں گھس گئےلیکن اس بار وہ زیادہ خوش قسمت ثابت نہیں ہوئے۔اچانک کسی نے تاک کر پتھر مارا اور اسکندر اعظم کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔پتھر لگنے سے ان کے سر اور گردن پر گہرا زخم لگا اور خون ٹپکنے لگا۔
وہ چکرا کر گرے اور بیہوش ہو گئے۔اپنے کمانڈر کو ایک بار پھر خون میں لت پت دیکھ کر یونانی فوجیوں کے تو ہوش اڑ گئے۔انہوں نے فوری طور پر ڈھالوں کی چھت بنائی اور اسکندرِ اعظم پر تان لی تاکہ وہ مزید پتھروں اور تیروں سے محفوظ رہ سکیں۔اس کے بعد وہ اپنے بیہوش بادشاہ کو ڈھالوں کی آڑ میں اپنے کیمپ میں واپس لے آئے۔سائرو پولس تو دوستو فتح ہو گیا لیکن یونانیوں کو اپنے سپریم کمانڈر کی جان کے لالے پڑے ہوئے تھے۔
زخمی ہونے کے کئی روز بعد تک اسکندر اعظم کی یہ حالت تھی کہ ان کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھایا رہتا تھا.اور وہ ٹھیک طرح سے بول بھی نہیں پاتے تھے۔طبیب ان کے زخم پر پٹیاں کرتے تھے لیکن زخم بار بار کھل جاتے تھے اور خون ٹپکنے لگتا تھا۔اسکندر اعظم کافی عرصے تک اسی حالت میں رہے لیکن آخر کار صحت یاب ہو گئے۔جب اسکندر اعظم نے فوج کی دوبارہ کمان سنبھالی تو ان کی فوج ایک تباہ کن جنگ میں پھنس چکی تھی۔
سائروپولس پر یونانیوں کے قبضے کے بعد بھی بغاوت ختم نہیں ہوئی تھی۔ہزاروں باغی اب بھی پہاڑوں میں روپوش تھے۔یہ باغی یونانی فوج کی سپلائی لائن پر مسلسل حملے کر رہے تھے۔یہاں آپ کو یہ بتا دیں کہ یونانی فوج کی سپلائی لائن بلخ سے شروع ہوتی تھی جہاں سے کھانے پینے کا سامان اور مزید کمک کو سمرقند لایا جاتا تھا اور پھر اسے آگے اسکندریہ اسکیٹ اور اس کے آس پاس کے علاقوں تک بھیجا جاتا تھا جہاں یونانی فوج تعینات تھی۔