History of Afghanistan Part 4 Urdu

History of Afghanistan Part 4 Urdu

لیکن سمر قند جو کہ اس سپلائی چَین کا درمیانی لِنک تھااس پر بھی اب حملے ہو رہے تھے اور اس میں تعینات یونانی فوجی خود کو محاصرے میں محسوس کرنے لگے تھے۔قلعے میں موجود یونانی فوجی، افغانوں کے خوف سے باہر ہی نہیں نکلتے تھےکیونکہ جو باہر نکلتا تھا وہ چھپا مار دستوں کے ہاتھوں مارا جاتا تھا۔دوستو اس لڑائی کی ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ یونانی کمانڈرز اور ان کے سولجرز افغانوں اور سیتھیئنز کو دیکھتے تو خوفزدہ ہو جاتےکیونکہ ان کے سر کے بال اور داڑھی کے بال ان سلجھے لمبے لمبے ہوتے تھے اور ان کی ہیبت میں اضافہ کر دیتے تھے۔

کہتے ہیں کہ ایک یونانی جنرل نے تو اسکندرِ اعظم کو یہ مشورہ بھی دیا کہ ان باغیوں سے رات کے اندھیرے میں لڑنا چاہیے۔
یعنی وہ یہ کہنا چاہتے تھے کہ اندھیرے میں افغانوں کے چہرے ان کے سپاہیوں کو نظر نہیں آئیں گے تو وہ زیادہ خوف بھی نہیں کھائے گے۔تو مختصر یہ کہ یونانی فوج پر باغیوں کا رعب بیٹھ چکا تھا اور سپاہیوں کا مورال ڈاؤن تھا۔لیکن اسکندرِ اعظم نے پھر بھی اسکندریہ اسکیٹ اس قلعے کی تعمیر جاری رکھی جس کی وجہ سے یہ بغاوت شروع ہوئی تھی۔

جبکہ سر دریا کے پار سے سیتھیئن گھڑ سوار باغی مسلسل اس قلعے پر تیروں کی بارش کرتے رہے کیونکہ یہ قلعہ ان کی رینج میں تھا۔اس دوران ایک، دو بار یونانی فوج نے دریا عبور کر کے ان حملہ آوروں پر کاری ضرب لگانے کی کوششیں بھی کیں،لیکن ہر بار یہ لوگ پلٹ کر دوبارہ وار کرتے تھے۔دوستو پھر ایک دن یوں ہوا کہ باغیوں نے اسکندر اعظم کو ان کی زندگی کا ایک بہت بڑا زخم لگایا۔

باغیوں نے سمرقند کے قریب یونانی فوج کے ایک دستے جس میں دو ہزار تین سو ساٹھ سپاہی شامل تھے، اس پر گھات لگا کر حملہ کیا باغیوں نے زبردست گوریلا جنگ کرتے ہوئے اس دستے کے زیادہ تر سپاہیوں کو قتل کر دیا۔فوجی دستے کی کمان کرنے والے افسروں اور تین یونانی جنرلز میں سے کوئی بھی زندہ نہیں بچا۔بہت تھوڑے فوجی بڑی مشکل سے جان بچا کر سمرقند پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔

یہ حملہ اتنا شدید تھا کہ اسکندرِ اعظم نے حکم دیا کہ اس حملے میں بچ جانے والے سپاہیوں کو باقی فوج سے الگ رکھا جائےتاکہ یہ اپنے ساتھیوں کو اس ناکام حملے کی کہانیاں سنا کر مزید پریشانی نہ پھیلا سکیں۔اس حملے کے بعد اسکندرِ اعظم نے تیزی سے پلٹ کر سمرقند کی طرف پیش قدمی کی لیکن جب وہ وہاں پہنچےتو سمرقند کے قریب موجود باغی پہاڑوں میں پسپا ہو گئے۔افغان باغیوں اور ان کے سینٹرل ایشیئن اتحادیوں کی زبردست کارروائیوں نے اسکندرِ اعظم کومشتعل کر دیا تھا۔

ان کے حکم پر یونانی فوج نے بڑے پیمانے پر مقامی آبادی کا قتلِ عام شروع کر دیا۔کئی قلعے اور دیہات نیست و نابود کر دئیے گئے، ہزاروں مقامی لوگ مار دیے گئے،ان کی فصلوں کو بھی جلا دیا گیا اور بچنے والوں کو غلام اور لونڈیاں بنا لیا گیا۔لیکن دوستو آپ دیکھئے کہ افغانوں نے اس پر بھی ہتھیار نہیں ڈالے اور یونانیوں سے لڑائی جاری رکھی۔یونانی فوج مقامی آبادی پر جتنا ظلم کرتی تھی مقامی لوگ اس کے خلاف اپنی مزاحمت اتنی ہی تیز کر دیتے تھے۔

مقامی آبادی بھی یونانی فوج سے ہوشیار ہو گئی تھی۔عام لوگوں نے بھی پہاڑوں میں خفیہ پناہ گاہیں بنا لی تھیں۔جب بھی یونانی فوج کسی علاقے پر چھاپہ مارتی تو مقامی لوگ غاروں اور خفیہ پناگاہوں میں چھپ کر جان بچا لیتےیونانی فوج اور افغانوں میں زبردست لـڑائی کے نتیجے میں سینٹرل ایشیا اور شمالی افغانستان کے علاقےجو پہلے خوشحالی کی مثال تھے وہ تباہ حالی کی تصویر بن گئے۔لیکن پھر بھی کوئی فریق ہار ماننے کو تیار نہیں تھا۔۔

About admin

Check Also

Victory of the Afghans in the Battle of Maiwand p6

Victory of the Afghans in the Battle of Maiwand p6

Victory of the Afghans in the Battle of Maiwand p6 The ruler of his will …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

MENU

Stv History