Jalaluddin Mohammad Akbar Urdu Part 1
وہ ہندوستان کا تیسرا مغل شہنشاہ تھا لیکن مغلوں کی سلطنت کو جتنا مضبوط اس نے کیا کوئی نہ کر سکا، لیکن اپنی کامیابیوں اور نظریات نے اسے اس حد تک پہنچا دیا کہ اس نے ایک نیا مذہب ایجاد کیا اور عوام میں دیوتا بن گیا۔ لوگ اپنی منتوں مرادوں کیلئے اس کے پاس آنے لگے۔ اس کا دور حکومت ہندوستان میں امن اور خوشحالی کا دور تھا۔ اسی وجہ سے تاریخ میں آج بھی اسے اکبراعظم کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ ہم آپ کو ہندوستان کے شہنشاہ جلال الدین محمد اکبر کی داستان دکھا رہے ہیں جسے دنیا اکبر اعظم کے نام سے جانتی ہے۔
یہ چھوٹا سا گنبد اور چھوٹی اینٹوں کا ایک چبوترا پاکستان کے شہر عمر کوٹ سندھ میں واقع ہے آج سے تقریباً 5 صدیاں پہلے اسی جگہ ہندوستان کا عظیم شہنشاہ اکبر پیدا ہوا تھا۔ جب اکبر نے آنکھ کھولی تو اس کا والد ہمایوں دہلی کی سلطنت شیر شاہ سوری کے ہاتھوں گنوا کر دربدر پھر رہا تھا۔ جیب میں اتنے پیسے بھی نہیں تھے کہ بیٹا پیدا ہونے کی خوشی منا سکے۔ بس کچھ مشک تھی جو اس نے اپنے ساتھیوں میں تقسیم کر دی اور ساتھ ہی کہا اگر میں دلی کا بادشاہ ہوتا تو اس مبارک گھڑی پر ہیرے جواہرات لٹاتا۔
اس وقت میرے پاس یہی ہے اسے قبول کیجئے اور بچے کے لیے دعا کر دیجئے۔ مصاحبوں میں سے کسی نے کہا بادشاہ سلامت آپ فکر نہ کریں اس لڑکے کی خوشبو مشک کی طرح سارے عالم میں پھیلے گی۔ اکبر کو کم عمری میں کابل میں اس کے چچا کامران مرزا کے پاس بھیج دیا گیا تھا۔ لیکن کابل میں اکبر پر موت کے سائے منڈلانے لگے۔ ہوا یہ کہ اکبر کے چچا کامران مرزا نے اپنے بھائی ہمایوں کےخلاف بغاوت کر دی۔ جب ہمایوں نے فوج لے کر کابل کا محاصرہ کیا تو کامران مرزا نے ایک خوفناک چال چلی۔ اس نے چار سالہ اکبر کو قلعے کی فصیل پر لاکر ایک چتا کے ساتھ باندھ دیا۔
فصیل کے نیچے کھڑا ہمایوں یہ منظر دیکھ رہا تھا۔ وہ سمجھ گیا کہ اگر اس نے قلعے پرحملہ کیا تو اکبر کو زندہ جلا دیا جائے گا۔ یہ ہمایوں کیلئے بہت بڑی آزمائش تھی لیکن وہ اکبر کی زندگی بچانے کیلئے پیچھے نہیں ہٹا۔ بلکہ قلعے پر حملہ آور ہو کر کابل پر قبضہ کر لیا اور اکبر کو آزاد کرا لیا۔ اکبر کو شاہی دستور کے مطابق خادماؤں نے اپنا دودھ پلایا تھا۔ اس کی ایک خادمہ جو اس کی رضاعی ماں تو نہیں تھی تاریخ میں بہت مشہور ہوئی۔ اس کا نام ماہم انگہ تھا اور اکبر اس کا بہت فرمانبردار تھا۔ لیکن اکبر کو پڑھنے لکھنے کا بالکل بھی شوق نہیں تھا۔
شوق تھا تو صرف اپنی طاقت دکھانے کا۔ وہ اپنے سے بڑی عمر کے لڑکوں کو کشتی کیلئے چیلنج کرتا اور اکثر انہیں ہرا دیتا تھا۔ اکبر تیرہ برس کا تھا تو شہنشاہ ہمایوں نے سوری خاندان سے دہلی کا تخت واپس چھین لیا۔ دہلی واپس لینے کے کچھ ہی عرصے بعد ہمایوں کی موت ہو گئی۔ اس وقت اکبر دہلی سے چار سو ستر کلومیٹر دور کلانور کےعلاقے میں تھا۔ ہمایوں کی موت کی وجہ سے بغاوت پھیلنے کا خدشہ تھا۔ اس لئے درباریوں نے ہمایوں کی موت کی خبر چھپانے کیلئے ایک چھوٹا سا ڈرامہ کھیلا۔ ہمایوں کا ایک وفادار عالم دین ملا بیکسی تھا۔
اس کی جسامت اور داڑھی کا سٹائل ہمایوں سے ملتا جلتا تھا۔ دربایوں نے اسے ہمایوں کی موت کے متعلق اعتماد میں لیا۔ پھر یوں ہوا کہ ملا بیکسی روز شاہی لباس پہن کر شاہی محل کے جھروکے میں کھڑا ہو جاتا۔ لوگ اسے دور سے دیکھ کر یہی سمجھتے کہ بادشاہ زندہ ہے اور رعایا کو اپنا دیدار کروا رہا ہے۔ دوسری طرف ایک گھڑ سوار کو فوری طور پر کلانور دوڑایا گیا۔ یہ گھڑ سوار افراتفری میں کلا نورپہنچا اور بادشاہ کی موت کی خبر دے دی۔ ہمایوں کا وفادار ساتھی بیرم خان اس وقت اکبر کے ساتھ تھا۔
بیرم خان نے یہ خبر سنی، وہ آنے والے خطرات کو سمجھ گیا تھا۔ اس نے اکبر کو دہلی لے جانے کے بجائے کلانور میں ہی ایک تقریب منعقد کر کے اکبر کے بادشاہ ہونے کا اعلان کر دیا۔ بیرم خان خود اکبر کا وزیر اور گارڈین بن گیا۔ اب ہمایوں کی موت کی خبر چھپی نہ رہ سکی اور ساری سلطنت میں بغاوت شروع ہو گئی۔ حتیٰ کہ دہلی پر بھی حملہ ہو گیا۔