Jalaluddin Mohammad Akbar Urdu Part 2

Jalaluddin Mohammad Akbar Urdu Part 2

ہندوستان میں مغلوں کا سب سے بڑا دشمن سوری خاندان تھا۔ ہمایوں سے شکست کے بعد بھی ہندوستان کے مشرقی علاقوں پر سوریورں کا اقتدار برقرار تھا۔ اسی خاندان کے ایک ہندو وزیر ہیمو نے ہمایوں کی موت کی خبر ملتے ہی دہلی اور آگرہ پر چڑھائی کر دی اور ان پر قابض بھی ہو گیا۔ اس نے وکرما دتیہ کے نام سے ہندوستان کا نیا شہنشاہ ہونے کا اعلان کر دیا۔ یوں لگتا تھا کہ ہمایوں کے بعد اکبر کو بھی اب جلا وطنی کی زندگی گزارنا ہو گی کیونکہ دہلی اس کے ہاتھ سے نکل چکا تھا۔ لیکن اکبر کا گارڈین بیرم خان ہار ماننے کیلئے تیار نہیں تھا۔

اس نے اکبر کو ساتھ لیا اور مغل فوج کے ساتھ دہلی کی طرف بڑھا۔ ادھر سے ہیمو یا وکرما دتیہ بھی اپنی پوری طاقت کے ساتھ مقابلے کیلئے نکلا۔ قسمت کی ستم ظریفی دیکھئے کہ دونوں فوجوں کا ٹکراؤ ہوا پانی پت کے تاریخی میدان میں۔ یعنی عین اس جگہ جہاں اکبر کے دادا ظہیرالدین بابر نے ابراہیم لودھی کو شکست دے کر دہلی کا تخت حاصل کیا تھا۔ پانچ نومبر پندرہ سو چھپن کے روز پانی پت کے تاریخی میدان میں دوسری بڑی جنگ ہوئی۔ ہیمو ہاتھی پر سوار ہو کر اپنی فوج کی قیادت کر رہا تھا۔ دونوں طرف کے سپاہی بہادری سے لڑ رہے تھے۔

مگر اکبر کے ستارے بلند تھے۔ اچانک میدان جنگ میں ایک تیر چلا اور سیدھا ہیمو کی آنکھ میں لگا۔ وہ زخمی ہو کر ہاتھی پر ہی گر گیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یہ تیر اکبر نے چلایا تھا۔ بہرحال تیر جس نے بھی چلایا ہو، ہیمو کے گرتے ہی جنگ کا فیصلہ ہو گیا۔ اس کے سپاہی اسے مردہ سمجھ کر میدان جنگ سے فرار ہو گئے۔ لیکن ذرا ٹھہریے۔ ہمیو زندہ تھا، اس نے اپنی آنکھ سے تیر نکالا۔ سر کو ایک رومال سے باندھا اور اپنے بچے کھچے ساتھیوں کو اکٹھا کر پھر سے جنگ شروع کر دی۔ لیکن اب اتنی بہادری دکھانے کا کوئی فائدہ نہیں تھا کیونکہ اکبر کی فوج جنگ پر حاوی ہو چکی تھی۔

مغل فوج نے ہیمو کے ساتھیوں کا صفایا کر دیا اور ہیمو کو زندہ گرفتار کر کے زنجیروں میں جکڑ کر اکبر کے سامنے پیش کر دیا گیا۔ بیرم خان جس کی منصوبہ بندی سے یہ جنگ جیتی گئی تھی وہ جشن منانے کیلئے بے تاب تھا۔ اس نے اکبر سے کہا بادشاہ سلامت یہ آپ کی پہلی جیت ہے۔ دشمن کا سر اپنی تلوار سے قلم کیجئے اور اس فتح کا جشن منائیے۔ اکبر یہ بات سن کر ہنس پڑا۔ اس نے کہا ہارے اور بندھے ہوئے دشمن کا سر کاٹنا کوئی بہادری نہیں۔ ہماری تلوار یہ کام نہیں کرے گی۔ اسے لے جاؤ۔ مگر بیرم خان کسی صورت ہیمو کو زندہ چھوڑنے کا رسک نہیں لے سکتا تھا۔

اس دور میں بغاوت کی سزا صرف موت تھی۔ چنانچہ بیرم خان نے اپنی تلوار سے ہیمو کا سر قلم کر دیا۔ ہیمو کی موت کے بعد دہلی اور آگرہ پھر سے اکبر کے قبضے میں آ گئے۔ دیگر بغاوتوں کو بھی کامیابی سے کچل دیا گیا اور کچھ ہی عرصے میں مغل سلطنت میں امن و امان قائم ہو گیا۔ لیکن سیاست کا اصول ہے کہ حکومت کی جنگ کبھی ختم نہیں ہوتی۔ اکبر کے باغی تو ختم ہو گئے تھے لیکن اس کا گارڈین بیرم خان جسے اکبر پیار سے بابا کہتا تھا وہی اکبر کیلئے بڑی مشکل بن گیا۔

بیرم خان کم عمر اکبر کو اپنے کنٹرول میں رکھ کر خود سلطنت کا نظام چلا رہا تھا یعنی اکبر صرف نام کا بادشاہ تھا۔ آل ان آل تو بیرم خان تھا۔ بیرم خان نے سلطنت میں اپنی مرضی کے فیصلے شروع کر دیئے۔ اس نے اکبر کی اجازت کے بغیر اس کے ایک اہم درباری تردی بیگ اور کئی دیگر لوگوں کو بھی قتل کروا دیا۔ لیکن اکبر زیادہ دیر بیرم خان کے اثر میں نہیں رہا۔ جیسے ہی وہ سترہ برس کا ہوا اس نے بیرم خان کو وزیراعظم کے عہدے سے برطرف کر کے حج پر بھیج دیا۔

About admin

Check Also

Victory of the Afghans in the Battle of Maiwand p6

Victory of the Afghans in the Battle of Maiwand p6

Victory of the Afghans in the Battle of Maiwand p6 The ruler of his will …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

MENU

Stv History