Jalaluddin Mohammad Akbar Urdu Part 4
لوگ اپنی دولت میں اضافے اور دوسری مرادیں پوری کرنے کیلئے اکبر کے پاس آتے تھے۔ اس کے پاس پانی کے پیالے لائے جاتے جن پر اکبر پھونک مارتا اور بیمار لوگ اس پانی کو پی کر شفاء کی امید کرتے تھے۔ اکبر برہمنوں کے ساتھ سورج کی پوجا کرتا تھا، عیسائیوں کی صلیب کے آگے جھکتا تھا اور یہودیوں کو بھی عزت دیتا تھا۔ اکبر کی رعایا میں سب سے زیادہ ہندو طبقہ اس سے خوش تھا۔ اکبر نے ہندوؤں پر عائد جزیہ معاف کر دیا، گائے ذبح کرنے پر پابندی لگا دی اور ہندوؤں کو دربار میں اہم عہدوں پر فائز کیا۔ حتیٰ کہ اکبر کے نورتنوں میں سے تین ٹوڈر مل، مان سنگھ اور بیربل بھی ہندو تھے۔
اکبر کے دور میں دسہرہ اور بیساکھی سمیت ہندو تہوار سرکاری سطح پر منائے جاتے تھے۔ اس نے مہا بھارت سمیت سنسکرت کی کئی کتابوں کے فارسی تراجم بھی کرائے۔ مذہبی اقدامات کے علاوہ اکبر نے کئی مکینیکل تجربات بھی کیے۔ جن میں سے کچھ کامیاب رہے۔ جیسے اس نے چھکڑوں اور رہٹ کو تیزرفتاری سے چلانے کیلئے خاص پہیے تیار کرائے۔ اس نے ایک ایسی مشین کا نمونہ بھی تیار کرایا جو ایک ہی وقت میں کنویں سے پانی بھی نکالتی تھی اور ایک چکی کو بھی چلاتی تھی۔ اکبر نے بڑی تعداد میں اسلحہ تیار کرنے والے کارخانے بھی لگوائے۔
اکبر عام طور پر آگرہ یا اس سے چھتیس کلومیٹر دور فتح پور سیکری میں دربار لگاتا تھا۔ لیکن اس نے کئی برس تک لاہور کو بھی اپنا دارالحکومت بنائے رکھا۔ لاہور میں اس نے ایک شاندار قلعہ تعمیر کروایا جو آج بھی پوری شان و شوکت سے موجود ہے اور بعد کے مغل بادشاہوں نے اس میں کچھ اضافے بھی کئے۔ لاہور میں اکبر نے مذہبی بحث کیلئے خیرپورہ اور دھرم پورہ کے نام سے دو عمارتیں تعمیر کرائیں۔ خیرپورہ مسلمانوں، یہودیوں اور آتش پرستوں کیلئے اور دھرم پورہ ہندوؤں کیلئے تھا۔ اکبر کے دور میں مغل سلطنت پورے ہندوستان میں پھیل گئی۔
اپنا اقتدار پھیلانے کیلئے اکبر کے پاس دو ہتھیار تھے۔ جنگ اور شادی۔ اکبر نے بنگال، بہار، کشمیر، سندھ، گجرات اور دکن کے بڑے حصے جنگ سے فتح کئے۔ جبکہ راجپوتانہ میں طاقت کے استعمال کے ساتھ اکبر نے شادیوں کا سہارا بھی لیا۔ اس نے جے پور، جودھ پور اور بیکانیر کے راجاؤں کی بیٹیوں سے شادیاں کیں۔ ان شادیوں کی مدد سے اکبر نے زیادہ تر راجپوت راجاؤں کو اپنے اثر میں لے لیا تھا۔ جبکہ چتوڑ سمیت کئی علاقوں کو طاقت سے کنٹرول کیا گیا۔ صرف میواڑ کا راجہ مہارانا پرتاپ آخر وقت تک لڑتا رہا۔ میواڑ پر مغلوں نے جہانگیر کے دور میں مکمل قبضہ کیا۔
لیکن اتنی بڑی سلطنت اور مال و دولت نے بھی اکبر کو عیش و آرام کا شوقین نہیں بنایا۔ وہ جسمانی طور پر ہر وقت ایکٹو رہتا تھا اور اکثر شکار بھی جاتا تھا۔ نوجوانی میں وہ شکار کھیلنے کیلئے شکاری کتوں کے ساتھ چیتے بھی استعمال کرتا تھا۔ اس نے اپنی شکار گاہ میں ایک ہزار چیتے پال رکھے تھے۔ اس نے بندوق سے ہزاروں جانور شکار کئے۔ وہ ہاتھی کے دانتوں پر پاؤں رکھ کر اس پر سوار ہو جاتا تھا۔ وہ کھیلوں میں بھرپور حصہ لیتا تھا اور اتنا فِٹ تھا کہ ایک دن میں چالیس میل تک پیدل چل سکتا تھا۔ جسمانی مشقت کے ساتھ وہ اپنے ذہن کو تیز رکھنے کیلئے شطرنج بھی کھیلتا تھا۔
کہتے ہیں اکبر نے اپنے محل کے صحن میں شطرنج کی بساط کا نقشہ بنا رکھا تھا جس پر شطرنج کھیلنے کیلئے مہروں کی جگہ انسان استعمال ہوتے تھے۔ یہ اس کی جسمانی فٹنس اور ذہنی صلاحیتیں ہی تھیں جنہوں نے اکبر کو ایک طاقتور حکمران اور ہندوستان کو ایک پرامن اور خوشحال ملک بنائے رکھا۔ سب مذاہب کے لوگ اس سے خوش تھے۔ اسی لئے وہ تاریخ میں اکبر اعظم کہلایا۔ آج بھی اس کی زندگی پر فلمیں اور ڈرامے بنائے جاتے ہیں اور اسے اچھے لفظوں میں یاد کیا جاتا ہے۔ لیکن اتنے بڑے حکمران پر بھی موت کا خوف طاری تھا۔اپنی زندگی کے آخری دنوں میں وہ موت سے بچنے کی ترکیبیں ڈھونڈتا رہا۔
اسے کسی نے بتایا تھا کہ ہندو سادھو اپنی کرامات سے موت کو بھی روک لیتے ہیں۔ اس نے ان سادھوؤں کے ساتھ بھی وقت گزارہ لیکن موت کو نہ روک سکا۔ سولہ سو پانچ میں جب اسے حکومت کرتے انچاس برس ہو گئے تھے تو وہ ایک دن بیمار پڑ گیا۔ طبیبوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود اسے بچایا نہ جا سکا۔ ستائیس اکتوبر سولہ سو پانچ کو اکبر اعظم تریسٹھ برس کی عمر میں اس جہانِ فانی سے کوچ کر گیا۔ اس کے بیٹے اور جانشین جہانگیر نے اکبر کیلئے آگرہ کے نواحی علاقے سکندرا میں ایک سو انیس ایکڑ رقبے پر ایک شاندار مقبرہ تعمیر کروایا جو اکبر اعظم کی آخری آرام گاہ بنا۔ یہ تھی شہنشاہ اکبر کی داستان حیات۔