Mahmood Ghaznavi Urdu Part 1

Mahmood Ghaznavi Urdu Part 1

اسلام کے ابتدائی دنوں خلافت راشدہ کے زمانے کی بات ہے کہ ایرنی بادشاہ یزدگرد مسلمانوں سے شکست کھا کر ساتھیوں سمیت اس علاقےترکمانستان میں چلا آیا۔ یہ ترکوں کا آبائی علاقہ تھا۔ اور یہاں رہتے ہوئے اور مقامی لوگوں سے شادیاں کرتے ہوئے چند نسلوں بعد یزد گرد کی اولاد مکمل طور پر ترک ہی ہو گئی۔ ایک ہزار سال پہلے اسی خاندان کا ایک ترک نوجوان غلام بنا لیا گیا۔ اس غلام کو سینٹرل ایشیا کی طاقتور ترین سلطنت، سلطنتِ سامانیہ کے ایک گورنر ’الپت گین‘ نے خرید لیا۔ اس غلام کا نام تھا ’سبُکت گین‘۔ وہی ’سبُکت گین‘ جس کے بیٹے کو ہم اور آپ سلطان محمود غزنوی کے نام سے جانتے ہیں۔

یہ ترک نسل کا معمولی غلام اور اس کا بیٹا تاریخ کے ناقابل فراموش کردار کیسے بن گئے؟ میں ہوں فیصل وڑائچ اور دیکھو سنو جانو کی وہ کون تھا سیریز میں ہم آپ کو یہی سب دکھائیں گے ۔ غلام ’سبُکت گین‘ اپنی بہادری اور قابلیت کے باعث بہت تیزی سے اپنے آقا ’الپت گین‘ کے قریب ہوتاچلا گیا۔ ’الپت گین‘ سامانی سلطنت کا گورنر تھا۔ سامانی سلطنت آج سے بارہ سو سال پہلے قائم ہوئی تھی۔ اپنے عروج کے دور میں افغانستان، ایران، ترکمانستان، تاجکستان، ازبکستان، کرغستان، قازقستان اور پاکستان کے کئی حصے اس سلطنت کا حصہ تھے۔

لیکن جس دور کی کہانی ہم سنا رہے ہیں تب سامانی سلطنت بکھر رہی تھی۔ ’الپت گین‘ کی بھی سامانی حکمران ابومنصور سے کچھ ان بن ہو گئی تھی۔ اسی وجہ سے’الپت گین‘ نے بغاوت کر کے افغانستان میں غزنی کے علاقے پر حکومت قائم کر لی۔ اور اپنی آزادی کا اعلان کر دیا۔ ’الپت گین‘ کی اس کامیابی کا فائدہ پہنچا اس کے غلام سبکت گین کو۔ ہوا یوں کہ الپت گین نے سبکت گین کو ترقی دے کر جنرل بنا دیا اور اسے سلطنت کے باہر دوسرے علاقے فتح کرنے کا کام سونپ دیا۔ سبکت گین نے کئی مرتبہ ملتان اور لغمان کے صوبوں پر حملے کئے۔

یہ علاقے راجہ جے پال کی سلطنت کا حصہ تھے۔ سبکت گین نے ان علاقوں سے ہزاروں باشندوں کو غلام بنا کر غزنی بھی بھیجا تھا۔ جب الپت گین کا انتقال ہوا تو اس کے 2 ہی برس بعد اس کا بیٹا اور جانشین اسحاق بھی انتقال کر گیا۔ اب غزنوی سلطنت میں افراتفری تھی، قیاؤس تھا اور اسے چلانے کیلئے اب ایک قابل حکمران کی ضرورت تھی۔ چنانچہ فوج اور درباریوں نے مشاورت سےالپت گین کے داماد سبُکت گین کو غزنی کے تخت پر بٹھا دیا۔ جب سبکت گین تخت پر بیٹھا تو اس کا بڑا بیٹا عبدالقاسم یا ابوالقاسم محمود صرف چھے برس کا تھا۔

اسی بچے کو تاریخ محمود غزنوی کے نام سے جانتی ہے۔ سبُکت گین نے چھوٹی سی غزنی سلطنت کو سامانی سلطنت کے ماتحت کر دیا تھا اور خود غزنی میں سامانیوں کا گورنر بن گیا تھا۔ اس کی ساری توجہ اپنے بیٹے محمود غزنوی کو جنگی اور سیاسی دونوں قسم کی تربیت دینے پر لگی تھی۔ شاید وہ اپنے بیٹے کو مسقبل کا سلطان بنانے کے لیے تیار کر رہا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اپنے باپ کے 20 سالہ دورِ حکومت میں محمود غزنوی خوب منجھ گیا تھا۔ وہ مناسب قد کا ایک طاقتور نوجوان نظر آتا تھا۔ کتابوں کے مطابق وہ اتنا طاقتور تھا کہ جو گرز اور نیزہ وہ استعمال کرتا تھا اسے دوسرے لوگ مشکل سے ہی اٹھا پاتے تھے۔

وہ اپنے باپ کے شانہ بشانہ ہرمحاذ جنگ پر جانے لگا تھا۔ اس کی زندگی کا پہلا بڑا امتحان ہندوستان کے راجہ جے پال سے جنگ میں ہوا۔ سبُکت گین نے راجہ جے پال کی سلطنت پر حملہ کر دیا۔ جے پال بھی مقابلے کیلئے نکلا اور لغمان کے علاقے میں دونوں لشکروں میں زبردست جنگ ہوئی۔ اس جنگ میں محمود غزنوی بہت جانفشانی سے لڑا، جے پال کا لشکر بھی ڈٹ کر مقابلہ کرتا رہا۔ لیکن جے پال کے لشکر کے ساتھ ایک مسئلہ تھا۔ وہ یہ کہ اس کے زیادہ تر سپاہی پنجاب سے تعلق رکھتے تھے اور سخت سردی کے عادی نہیں تھے۔ سو اس کمزوری کو ایک عجیب طریقے سے استعمال کیا گیا۔

About admin

Check Also

Hazara Wars in Afghanistan p6

Hazara Wars in Afghanistan p6

Hazara Wars in Afghanistan p6 He writes that the Hazara people always sided with foreign …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

MENU

Stv History