Mahmood Ghaznavi Urdu Part 2
پرانی کتابوں میں ایک قصہ لکھا ہے۔ وہ یہ کہ محمود غزنوی کو لوگوں نے بتایا کہ جے پال کے لشکر کے قریب جو پانی کا چشمہ ہے اگر اس میں گندگی ڈال دی جائے تو سخت سردی پڑنے لگے گی۔ اور پھر پنجابی فوج جو ٹھنڈے موسم کی عادی ہرگزنہیں وہ اسے ٹھٹھر کر رہ جائے گی اور مقابلہ نہیں کر سکے گی۔ چنانچہ محمود غزنوی کے حکم پر سپاہیوں نے اس چشمے میں گندگی ڈالنا شروع کر دی۔ اب اسے محض اتفاق کہیں یا کچھ اور کہ اس کے کچھ دیر بعد آسمان پر بادل چھا گئے۔ پہلے بارش ہوئی اور پھر آسمان سے برف گرنے لگی۔ اتنی شدید برف پڑی کہ جے پال کے کیمپ میں مویشی مرنے لگے۔
سردی سے سپاہی بھی بیمار ہونے لگے تھے۔ یہ جے پال کے لیے تباہی تھی۔ چنانچہ جے پال نے سبُکت گین سے درخواست کی کہ وہ راجہ سے 10 لاکھ درہم اور 50 ہاتھی لے کر صلح کر لے۔ سبُکت گین تو فوری طور پر تیار ہو گیا مگر محمود غزنوی نے صلح کی مخالفت کی۔ بیٹے کی مخالفت دیکھ کر سبُکت گین بھی سوچ میں پڑ گیا۔ ابھی وہ کوئی فیصلہ نہیں کر پایا تھا کہ راجہ کا ایک ایلچی اس کے پاس پہنچا۔ ایلچی نے ’سبُکت گین‘کو خبردار کیا کہ اگر اس نے راجپوتوں یعنی جے پال سے صلح نہ کی دونوں طرف تباہی پھیل جائے گی۔
اس کی وجہ اسے یہ بتائی گئی کہ راجپوتوں کی ایک رسم یہ ہے کہ وہ ایسے حالات میں اپنے بیوی بچوں کو قتل کر کے اور اپنے گھروں کو جلا کے دشمن کی صفوں میں گھس جاتے ہیں اور خود کو انتقام کے سرخ طوفان میں غرق کر دیتے ہیں۔ ایلچی کی یہ بات سن کر ’سبُکت گین‘ صلح کے لیے راضی ہو گیا۔ مگر جے پال کے ذہن میں کچھ اور ہی کچھڑی پک رہی تھی۔ جے پال، سبُکت گین کے کچھ افسروں کو ساتھ لے کر لاہور چلا گیا تاکہ انہیں دس لاکھ درہم تاوان کی رقم ادا کر سکے۔ لیکن لاہور پہنچتے ہی منظر بدل گیا۔
اس نے سبُکت گین کے افسروں کو قید کر لیا اور نئی جنگ کیلئے تیاریاں شروع کر دیں۔ اس بار اس نے تنہا جنگ کرنے کے بجائے ہندوستان ریجن کی دوسری ریاستوں دہلی، اجمیر، کالینجر اور قنوج سے مدد مانگ لی۔ ان ساری ریاستوں کی مدد سے جے پال ایک لاکھ کا لشکر لے کر پھر لغمان جا پہنچا۔ جواب میں سبُکت گین بھی مقابلے کے لیے نکل آیا۔ اس نے ایک بلند جگہ پرکھڑے ہو کر جے پال کی فوج کا جائزہ لیا۔ وہ جہاں تک دیکھتا تھا اسے سر ہی سر نظر آتےتھے۔ یہ بہت بڑا لشکر تھا لیکن سبُکت گین کے پاس اس کے مقابلے کے لیے اتنا بڑا لشکر نہیں تھا۔
چنانچہ اس نے ایک جنگی چال چلی۔ سبُکت گین نے براہ راست حملہ کرنے کے بجائے اپنے سپاہیوں کو پانچ، پانچ سو کے دستوں میں تقسیم کیا۔ پھر اس نے جے پال کہ یہ بڑے لشکر میں وہ مقامات تلاش کیے جو اس کی نظر میں کمزور تھے۔ پھر اس پانچ پانچ سو کے دستوں نے صرف ان کمزورمقامات پر مسلسل حملے کیے۔ جے پال اس تکنیک کا مقابلہ نہ کر سکا اور اسے عبرتناک شکست ہو گئی۔ اس فتح کے بعد سبکتگین نے بھاری تاوان بھی وصول کیا اور لغمان سے پشاور تک کا ساراعلاقہ اپنی سلطنت غزنی سلطنت میں شامل کر لیا۔
جے پال سے لڑائیوں میں محمود غزنوی کی فوجی تربیت میں تو نکھار آیا تھا لیکن اس کا باپ اس کی اخلاقی تربیت کرنا بھی نہیں بھولاتھا۔ کہتے ہیں ایک بار محمود غزنوی نے اپنے باغ میں ایک نہایت عالیشان گھر تعمیر کروایا اور ایک نہایت پرتکلف دعوت میں اپنے والد کوبلایا۔ لیکن ’سبُکت گین‘نے جب گھر کو دیکھا تو اپنے بیٹے سے کہنے لگا ’میں نے اس گھر کو صرف ایک کھلونے کی طرح دیکھا ہے جسے میری رعایا میں سے دولت کے ذریعے کوئی بھی تعمیر کر سکتا ہے۔
پھر اس نے اپنے بیٹے کو نصیحت کی کہ ایک شہزادے کا کام یہ ہے کہ وہ شہرت کی ایسی یادگاریں تعمیر کرے جو شان و شوکت کے ستونوں کی طرح ہمیشہ قائم رہیں۔‘ ’سبُکت گین‘نے غزنی سلطنت کی حدود کو افغان علاقے بلخ تک بڑھا لیا تھا۔ اسی وقت آج سے تقریباً ایک ہزار تئیس سال پہلے اس شہر بلخ میں ’سبُکت گین‘کا انتقال ہو گیا۔ مرتے وقت اس نے اپنی سلطنت اپنے بیٹے اسماعیل کے نام کر دی۔ اسماعیل نے تخت پر بیٹھتے ہی اپنے درباریوں پر مال و دولت لٹانا شروع کر دی۔
ادھر محمود غزنوی سبُکت گین کی موت کے وقت اس کے پاس نہیں تھا۔ بلکہ وہ نیشاپور میں سامانی سلطنت کے خلاف ایک بغاوت کو کچل رہا تھا۔ اس نے اپنے بھائی سے حکومت چھیننے کی کوشش بھی نہیں کی۔ لیکن جب اسے یہ معلوم ہوا کہ اس کا بھائی سلطنت کی دولت دونوں ہاتھوں سے لٹا رہا ہے تو وہ خاموش نہ رہ سکا۔ اس نے اسماعیل کو ایک پیغام بھیجااور پیشکش کی کہ اگر اسماعیل باقی سلطنت چھوڑ دے تو محمود غزنوی اسے بلخ اور خراسان کا حکمران تسلیم کر لے گا۔
لیکن اسماعیل نے محمود غزنوی کی اس پیشکش کو مسترد کر دیا۔ اب محمود غزنوی نے اپنے ایک چچا اور چھوٹے بھائی کی حمایت سے بغاوت کر دی۔ محمود غزنوی اپنی فوج اور اتحادیوں کے ساتھ غزنی کے قلعہ کی طرف بڑھا تاکہ خزانے اور قلعہ پر قابض کر سکے۔ اتفاق دیکھئے کہ اسماعیل بھی اس وقت غزنی میں نہیں تھا وہ بھی غزنی کی طرف ڈورا تاکہ محمود سے پہلے وہاں پہنچ سکے۔