Mahmood Ghaznavi Urdu Part 3
اورپھر تاریخ کا یہ اتفاق بھی دیکھئے کہ دونوں بھائی ایک ہی وقت میں غزنی کے قریب پہنچ گئے اور اب غزنی کے قلعہ پر قبضے کے لیے دونوں میں جنگ شروع ہو گئی۔ اسماعیل کے لشکر میں ہاتھی بھی شامل تھے اوربظاہر اس کا پلہ بھاری نظر آ رہا تھا۔ لیکن محمود غزنوی جیسے منجھے ہوئے کمانڈر کے سامنے اتنا بڑا اس کا لشکر زیادہ دیر تِک نہ سکا۔ لڑائی میں اسماعیل کی فوج جلدپسپا ہوئی لیکن غزنی کا قلعہ چونکہ ان کےقریب تھا،اس لیے اسماعیل اپنے سپاہیوں سمیت قلعے میں داخل ہو گیا اور وہاں پوزیشن سنبھال لی۔
اب صورتحال یوں تھی کہ اسماعیل، غزنی کے قلعے اور شاہی خزانے پر قابض تھا مگر محمود غزنوی قلعے کے باہر محاصرہ کیے ہوئے موجود تھا۔ لیکن اسماعیل کے ساتھ مسئلہ یہ تھا کہ وہ قلعے کے اندر رہتے ہوئےیہ خزانہ استعمال نہیں کر سکتا تھا۔ اور اس خزانہ کو استعمال کرتے ہوئےباہر سے بڑی فوج بھی تیار نہیں کر سکتا تھا۔ سو کچھ عرصے بعد اس نے مایوسی میں ہتھیار ڈال دیئے۔ قلعے اور خزانے کی چابیاں بھی محمود غزنوی کو پیش کر دی گئیں۔ اب محمود غزنوی نے اسماعیل سے پوچھا ’’بتاؤ اگر جنگ میں تم جیت جاتے تو مجھ سے کیا سلوک کرتے؟‘‘
اسماعیل نے کہا ’’میں تمہیں ایک ایسے قلعے میں قید کر دیتا جہاں عیش و آرام کے تمام سامان موجود ہوتے۔‘‘ محمود غزنوی نے بھی ایسا ہی کیا۔ اسماعیل کو مزارشریف کے قریب گزگان کے ایک قلعے میں قید کر دیاگیا۔ یہاں اسے ہر سہولت میسر تھی لیکن وہ قید تھا اور یہی اس کی موت واقع ہوئی۔ محمود غزنوی30 برس کی عمر میں تخت پر بیٹھا تھا لیکن اس کی حیثیت بھی اپنے باپ کی طرح سامانی سلطنت کے گورنر ہی کی تھی۔ محمود غزنوی نے سامانی سلطنت سے اپنی وفاداری ظاہر کرنے کیلئے سامانی دارالحکومت بخارا میں اپنا ایک سفیر بھی بھیجا۔
لیکن وہ زیادہ دیر اس کمزور سلطنت کا ماتحت نہ رہ سکا۔ نو سو ننانوے میں اس نے سامانیوں سے آزادی کا اعلان کر دیا۔ ہو سکتا تھا کہ سامانی اس کی بغاوت کو کچھلنے کے لیے ایک لشکر بھیجتے لیکن سلطان محمود غزنوی کو فائدہ یہ ہواکہ سینٹرل ایشیا کے ایک طاقتور حکمران ایلک خان بخارا پر چڑھ دوڑا۔ اس نے سامانی سلطنت کو صفہ ہستی سے ہمشیہ کے لیے مٹا دیا۔ محمود غزنوی نے ایلک خان کی بیٹی سے شادی کر کے اسے اپنا اتحادی بنا لیا۔ اب وہ اپنی سلطنت غزنی سلطنت کا پہلا باضابطہ سلطان تھا اور ہمسائے میں ایک طاقتور سلطنت کے ساتھ وہ اتحاد قائم کر چکا تھا اب اس کی قسمت کا ستارہ عروج پر پہنچنے والا تھا۔
لیکن اس خوش قسمت سلطان کو اپنا چہرہ کچھ زیادہ پسند نہیں تھا۔ اس کے چہرے پر چیچک کے گہرے نشانات تھے۔ سلطان بننے کے بعد ایک بار اس نے آئینے میں اپنی صورت دیکھی تو اداس ہو گیا۔ وہ اپنے وزیر سے کہنے لگا، کہا جاتا ہے بادشاہوں کی صورت دیکھنے سے نظر تیز ہوتی ہے لیکن میری تو صورت ایسی ہے کہ دیکھنے والوں کو تکلیف ہی پہنچتی ہو گی۔ وزیر نے کہا آپ یہ سوچیں کہ آپ کی صورت کم لوگوں نے دیکھی ہے۔ زیادہ لوگ آپ کو خوبیوں کی وجہ سے پہچانتے ہیں۔ تو آپ صورت سے زیادہ اپنی خوبیوں پر توجہ دیا کیجئے۔
تو اس نے یہی کیا۔ وہ اپنی صورت کو بھول گیا اور اپنی سلطنت کو بڑھانے کے لیے نئے نئے منصوبے بنانے لگا۔ اس کی بغل میں سونے کی چڑیا کا دیس تھا۔ جس کے بت سونے کے تھے، جس کے مندروں میں ہیرے جواہرات کے خزانے تھے اور شہروں میں دولت کے ڈھیر تھے۔ زرخیز زمینوں والا خوشحال ہندوستان محمود غزنوی کی آنکھوں کو خیرہ کر رہا تھا۔ ایک طاقتور ہندوستان اس کے سامنے تھا لیکن پھر یوں ہوا کہ ایک بدمست ہاتھی نے ہندوستان کی تاریخ بدل دی، کیسے؟ کیا سومناتھ کے مندر کی کہانی ویسی ہی ہے جیسی کہ مشہور ہے؟
سلطان محمود غزنوی کے مزار کے دروازے کیوں غائب ہیں؟ اور آخر کیوں سلطان نے ایک دن حکم دیا کہ اس کی ساری دولت اس کے سامنے ڈھیر لگا دی جائے؟ یہ سب آپ کو دکھائیں گے لیکن محمود غزنوی کی بائیوگرافی کے دوسرے اور آخری حصے میں لیکن اس دوران آپ ہمیں اپنے کمنٹس میں ضرور بتائیں کہ آپ کے خیال میں محمود غزنوی کیسا حکمران تھا؟ محمود غزنوی کی بائیوگرافی کا دوسرا حصہ یہاں دیکھئے یہاں جانئیے کہ سلطنت عثمانیہ کیسے سپر پاور بنی اور یہاں دیکھئے کہ پھر کیسے یہ عظیم الشان سلطنت صفحہ ہستی سے مٹ گئی