Mahmood Ghaznavi Urdu Part 4

Mahmood Ghaznavi Urdu Part 4

یہ ویرانے میں کھڑی بلند و بالا عمارت جو آپ دیکھ رہے ہیں اس میں سلطان محمود غزنوی دفن ہے۔ لیکن اس مقبرے کے موجودہ دروازے اس کے اصل دروازے نہیں ہیں۔ یہ تاریخ کا عجیب اتفاق ہے کہ محمود غزنوی کا مزار تو غزنی میں ہے اس کی موت کے بعد بھی لیکن یہ لڑائی ختم نہیں ہوئی۔ اس کے بیٹے آنند پال اور پھر نواسے جے پال ثانی نے بھی کئی دفعہ محمود غزنوی سے جنگیں لڑیں۔ لیکن ہر بار شکست ہی ان کا مقدر ٹھہری۔ ان میں سب سے بڑی جنگ ایک بار پھر پشاور ہی کے قریب ہوئی تھی۔ ایک ہزار آٹھ میں آنند پال نے تمام ہندوستانی ریاستوں کو متحد کر کے محمود غزنوی سے جنگ شروع کی۔

آنند پال کی درخواست پر اجین، گوالیار، قنوج، دہلی، اجمیر اور کالنجر کے راجاؤں کی فوج جمع ہو گئی۔ اس فوج کے لیے بہت سا مال اور دولت بھی چاہیے تھی۔ سو اس لیے بھی بہت جتن کیے گئے۔ یہاں تک کہ ہندو عورتوں نے اپنے زیور پگھلا کر فوج کو سونا اور چاندی بھی بھیجی۔ پشاور کے قریب دونوں فوجیں آمنے سامنے آئیں تو محمود غزنوی نے اپنی فوج کی کم تعداد کو دیکھتے ہوئے اپنے کیمپ کے گرد خندق کھود لی۔ چالیس روز تک دونوں فوجیں آمنے سامنے دو بدو کھڑی رہیں تیر چلا نہ تلوار، نیزے اچھلے اور نہ خون بہا، کوئی لڑائی نہیں ہوئی۔

لیکن 41 روز غزنوی فوج کے چھے ہزار تیراندازوں نے ہندوستانی فوج پر تیروں کی بارش کر دی۔ لیکن اس پہلے حملے کا بہت سخت جواب ملا۔ پہلے تو ہندوستانی فوج نے تیراندازوں کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ اور پھر انھوں نے خندق پار کی اور غزنوی فوج پر ٹوٹ پڑے۔ اب ہندوستای فوج کا پلڑا بھاری ہو گیا تھا۔ ہو سکتا تھا وہ یہ جنگ جیت بھی جاتے مگر پھر ایک حادثے نے جنگ کا پانسہ پلٹ دیا۔ بلکہ ہندوستان کا پانسہ پلٹ دیا۔ راجہ آنند پال جس ہاتھی پر سوار تھا وہ تیروں کی بارش اور کان پھاڑ دینے والے شور و غل سے خوفزدہ ہو کر بے قابو ہوا اور پھر جدھر منہ اٹھا ادھر بھاگ کھڑا ہوا۔

راجہ کے ہاتھی کو میدان چھوڑتے دیکھ کر ہندوستانی فوج میں بھی بھگدڑ مچ گئی۔ وہ بھی بھاگ نکلی اور یوں میدان جنگ کا فیصلہ ہو گیا۔ محمود غزنوی نے پشاور کا یہ میدان بھی مار لیا تھا۔ اس تاریخی فتح کے بعد محمود غزنوی نے ہندوؤں کے مقدس شہروں نگر کوٹ، تھانسیر اور دوسرے شہروں پر ہلا بولا اور انھیں تاخت و تاراج کر دیا۔ اس نے مندروں سے سونے چاندی کے بت اور ہیرے جواہرات جمع کر کے غزنی بھیج دئیے۔ تھانسیر میں تو دو لاکھ افراد کو غلام بھی بنایا گیا۔ اسی طرح قنوج میں بھی بیس روز تک تباہی و بربادی کا کھیل جاری رہا۔

کہتے ہیں کہ غزنی میں ایک بار سلطان نے پنجاب سے لائے گئے سونے کے تخت، قیمتی پتھر اور زیورات عوام کے سامنے پیش کئے تودیکھنے والوں کے چہروں پر حیرتوں کے سمندر تھے۔ محمود غزنوی نے ان علاقوں کے علاوہ کشمیر پر بھی حملہ کیاتھا۔ سید محمد لطیف اپنی کتاب تاریخ پنجاب میں لکھتے ہیں کہ محمود غزنوی نے کشمیر کی تمام عظیم الشان دولت کو لوٹ لیا اور وہاں کے لوگوں کو اسلام قبول کرنے پر مجبور بھی کیا۔ ایک ہزار انیس میں سلطان نے ہندوستان میں اپنی فتوحات کی تفصیلات بغداد کے خلیفہ القادر باللہ کو بھی بھیجیں۔

خلیفہ نے شہر کے مسلمانوں کو جمع کر کے ان کے سامنے یہ کارنامے سنائے اور شہر میں خوشی منائی گئی۔ عباسی خلیفہ نے محمود غزنوی کو امین الملت یعنی ملت اسلامیہ کا امانتدار اور یمین الدولہ یعنی ریاست کا سیدھا ہاتھ کے خطابات بھی دیئے، جبکہ انعام میں شاہی لباس بھی بھیجا۔ اس کے دو سال بعد محمود غزنوی نے لاہور پر حملہ کیا اور اسے فتح کر کے اس کا نام تک بدل دیا۔ اس نے لاہور کو محمود پور کا نام دیا۔ لیکن ظاہر ہے یہ نام زیادہ چلا نہیں۔ لاہور لاہور ہی رہا۔ ہاں اس کا مشہور غلام ایاز جسے اس نے لاہور کا حاکم بنایا تھا اس نے بہت نام کمایا۔

ایاز کی قبر لاہور کے علاقے رنگ محل میں موجود ہے۔ یہ وہی ایاز ہے جس نے شہر میں ایک قلعہ اور شہر کی دیوار تعمیر کی تھی۔ لیکن یاد رہے کہ یہ قلعہ اور دیوار وہ نہیں جو آج موجود ہیں۔ سلطان محمود غزنوی کے غلام ایاز کا لاہور میں وہی دور تھا جب حضرت داتا کے نام سے لازوال عزت پانے والے صوفی بزرگ حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری افغانستان سے لاہور تشریف لائے تھے۔ لیکن ان سب سے اہم اور یادگار واقعہ وہ ہے جس کے لیے سلطان محمود غزنوی کو تاریخ نے یاد رکھا ہے اور وہ واقعہ تھا سومناتھ مندر پر حملہ کا واقعہ یہ موجودہ بھارت کا علاقہ کاٹھیاواڑ گجرات ہے اور اس کی ساحلی پٹی ہے۔

یہیں کہیں وہ مشہور زمانہ سومناتھ کا مندر تھا جس پر ایک ہزار چوبیس میں سلطان محمود غزنوی نے حملہ کیا تھا۔ سلطان غزنی سے نکلا اور اجمیر کو اجاڑتا ہوا آگے بڑھا۔ راستے کے تمام قابل ذکر قلعوں کو فتح کرتا وہ دو سال میں سومناتھ کے دروازوں کے سامنے تھا۔ مندر کے دروازے صندل کی لکڑی کی بنے ہوئے تھے۔ اور ان کی شہرت بھی مندر ہی کی طرح پھیلی ہوئی تھی۔ سومناتھ ہندوں کا بہت مقدس مندر تھا۔ اس کی محافظ راجپوت فوج تھی۔

About admin

Check Also

Hazara Wars in Afghanistan p6

Hazara Wars in Afghanistan p6

Hazara Wars in Afghanistan p6 He writes that the Hazara people always sided with foreign …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

MENU

Stv History