Mahmood Ghaznavi Urdu Part 5
اس فوج نے سلطان کے حملوں کا تین دن تک ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اور سلطان کو مندر میں داخل ہونے سے روکے رکھا۔ سلطان محمود غزنوی کو شاید اتنے مضبوط دفاع کی توقع نہیں تھی۔ اس لیے جب اس نے فتح کی کوئی صورت نہ دیکھی توگھوڑے سے اترگیا۔ سید محمد لطیف لکھتے ہیں کہ اس نے لشکر کے سامنے خدا کو سجدہ کیا۔ اللہ سے مدد کے لیے دعا مانگی۔ اور دوبارہ گھوڑے پر سوار ہو گیا، اس نے اپنے جرنیل ابوالحسن کا ہاتھ تھاما اور ایسا نعرہ بلند کیا کہ ساری فوج میں جوش کی ایک لہر دوڑ پڑی اور وہ قلعے پر ٹوٹ پڑے۔ اس حملے میں پانچ ہزار راجپوت سپاہی مارے گئے۔
جو بچے وہ کشتیوں میں سمندر کے راستے فرار ہو گئے۔ سومناتھ کا تاریخی شہر اور مندر محمود غزنوی کے سامنے کھلا پڑا تھا۔ تاریخِ فرشتہ میں اس سے متعلق ایک اور واقعہ بھی لیکن لکھا ہوا ہے۔ وہ یہ کہ محمود غزنوی نے ایران کے صوفی بزرگ سلطان محمد شیخ ابوالحسن خرقانی کی چادر کو ہاتھ میں لے کر فتح کی دعا کی تھی۔ اسے سومناتھ میں فتح تو مل گئی لیکن اسی رات کہتے ہیں محمود غزنوی نے خواب میں شیخ ابوالحسن کو دیکھا۔ انہوں نے کہا ’’اے محمود تو نے میری چادر کی آبروریزی کی ہے۔ اگر تو فتح کے بجائے تمام غیر مسلموں کے اسلام لے آنے کی دعا کرتا تو وہ بھی قبول ہو جاتی۔‘‘
بہرحال جب سلطان سومناتھ کے مندر میں داخل ہوا تو اس کے سامنے ایک نو فٹ اونچا مسجمہ نصب تھا۔ سلطان نے گرز کی ضرب سے اس کی ناک توڑ دی۔ اس کے بعد اس نے حکم دیا کہ بت کے دو ٹکڑے غزنی روانہ کئےجائیں۔ ایک کو جامع مسجد کی دہلیز پر پھینک دیا جائے اور دوسرے کواس کے محل کے صدر دروزے پر رکھ دیا جائے۔ مندر کے برہمن پجاریوں نے اس بت کو بچانے کیلئے سلطان کو بڑی مقدار میں سونا دینے کی پیشکش کی۔ اس پر محمود غزنوی نے اپنا یہ مشہور زمانہ جملہ کہا تھا۔ کہ وہ تاریخ میں بت فروش نہیں بلکہ بت شکن کہلانا چاہتا ہے۔ چنانچہ اس کے حکم پر بت کو توڑ دیا گیا۔
جب بت کو توڑا گیا تو اس کے اندر سے بہت بڑی مقدار میں ہیرے جواہرات نکلے۔ غزنی کے علاوہ اس بت کا ایک ٹکڑا مکہ مکرمہ اور دوسرا مدینہ منورہ بھی روانہ کیا گیا تھا۔ مندر سے سونے چاندی کے چھوٹے بڑے مزید بت اتنی بڑی تعداد میں ملے کہ ان کی قیمت کا درست اندازہ مشکل ہو گیا۔ ایسا بھی تاریخ میں مشہور رہا ہے کہ سومناتھ کے قیمتی دروازے تک سلطان محمود غزنوی اکھاڑ کر غزنی لے گیا تھا۔ اور یہ دروازے اس کے مقبرے میں لگائے گئے تھے۔ لیکن کیا واقعی؟ یہ کہانی بہت افسانوی رنگ لیے ہوئے ہے، بہت جذباتی ہے۔ لیکن کیا سچی بھی ہے؟
اس کو پرکھنے کے لیے آپ کو ایک ہزار سال پرانی نہیں بلکہ صرف دو صدیوں پرانی ایک بات بتاتے ہیں۔ اٹھارہ سو بیالیس میں برطانوی پارلیمنٹ میں ایک بحث ہوئی جو تاریخ میں پروکلیمیشن آف گیٹس کے نام سے مشہور ہے۔ اس میں بقول بھارتی مصنف رومیلا تھاپڑ انگریزوں نے ہندووں کی ہمدردی حاصل کرنے کے لیے فیصلہ کیا کہ محمود غزنوی کے مزار سے سومناتھ کے دوازے واپس لائے جائیں اور ہندوؤں کو دیے دئیے جائیں، کیونکہ ان کے خیال میں آٹھ سو سال پہلے محمود غزنوی نے ہندوؤں کے حقوق پامال کیے تھے۔
لیکن ہوا یہ کہ جب وہ دروازے محمود غزنوی کے مزار سے اکھاڑ کرہندوستان لائے گئے تو پتا چلا کہ وہ دراصل سومناتھ مندر کے دروازے ہیں ہی نہیں۔ کیونکہ سومناتھ کے دروازے تو صندل کی لکڑی کے تھے جبکہ یہ دروازے غزنی میں پائی جانے والی دیودار کی لکڑی سے بنائے گئےتھے۔ اور ان پر عربی رسم الخط میں عربی زبان میں کچھ لکھا بھی ہوا تھا۔ اس بات نے اس سارے واقعے کی تفصیلات کو مشکوک کر دیا کہ کیا سومناتھ کےمندر کی فتح اور لوٹ مار کے بارے میں جو کہانیاں مشہور ہیں وہ اسی طرح پیش آئی تھیں یا اس میں بہت زیادہ مبالغہ آرائی ہے ایگزیجیریشن ہے؟
بھارتی محقق اور مصنف رومیلا تھاپڑ تو لکھتی ہیں ان قصوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہے۔ ان کے مطابق یہ حملہ اتنا بڑا نہیں تھا جتنا تاریخی کتابوں میں لکھا گیا ہے۔ ان کے خیال میں یہ کہانی انگریزوں نے ہندوستانی مسلمانوں اور ہندوؤں میں تفریق پیدا کرنے کے لیے پھیلائی تھی۔ ہو سکتا ہے کہ سلطان محمود غزنوی نے ہندوستان میں وہ سب نہ کیا ہو جس کا اس پر الزام لگایا جاتا ہے۔ لیکن اس کے ذاتی کردار اور مسلمانوں سے اس کی جنگوں پر سوالات خود مسلمان مورخین نے بھی اٹھائے ہیں۔ سید محمد لطیف لکھتے ہیں کہ محمود غزنوی شراب پیتا تھا۔
پروفیسر عزیز الدین الزام لگاتے ہیں کہ محمود غزنوی نے ہندوستان سے غیر مسلم سپاہیوں کی ایک فوج تیار کر کے مسلمانوں کے خلاف استعمال کی تھی۔ محمود غزنوی نے سیستان اور گرجستان کی مسلمان ریاستوں پر بھی قبضہ کیا۔ اور تو اور اس نے سمرقند حاصل کرنے کیلئے بغداد میں مسلمانوں کے عباسی خلیفہ کو بھی دھمکی دی تھی۔ اس نے کہا تھا کہ ’میں اب جان گیا ہوں کہ تم لوگ یہ چاہتے ہو کہ میں ہزار ہا ہاتھیوں سے دارالخلافت کو روند ڈالوں اور بارگاہ خلافت کا ملبہ انہی ہاتھیوں پر لاد کر غزنی لے آؤں۔‘
محمودغزنوی کے متعلق یہ بھی مشہور ہے کہ اس نے مشہور زمانہ شاعر فردوسی سے شاہنامہ لکھوایا تھا اور ہر شعر کے بدلے سونے کی اشرفی دینے کا وعدہ کیاتھا۔ لیکن جب شاہنامہ تحریر ہو گیا تو سونے کے بجائے چاندی کے سکےاس نے پیش کر دیئے فردوسی کی خدمت میں۔ فردوسی نے یہ معاوضہ لینے سے انکار کر دیا۔ بعد میں محمود غزنوی نے فردوسی کیلئے سونے کے سکے بھیجے۔ لیکن یہ سکے تب پہنچے جب فردوسی کا جنازہ گزر رہا تھا۔ ان سب باتوں کے باوجود یہ حقیقت اپنی جگہ ہے کہ سلطان محمود غزنوی نے ایک عظیم الشان سلطنت قائم کی تھی۔
اس کی سلطنت ایران سے لے کر کچھ چینی علاقوں تک اور جنوب میں بحیرہ عرب تک پھیلی ہوئی تھی۔ صرف سلطنت ہی نہیں پھیلی تھی بلکہ اس کے پاس خزانوں کے بھی انبار لگ چکے تھے۔ لیکن اب یہ خزانوں کے انبار اس سے جدا ہونے والے تھے۔ اسے تریسٹھ برس کی عمر تک پتھری کا جان لیوا مرض لاحق ہو چکا تھا۔ جب وہ جان گیا کہ اس کے زندہ رہنے کا کوئی امکان نہیں تو وہ غمزدہ رہنے لگا۔ اس نے شاہی خزانے سے تمام جوہرات، روپے اور اشرفیاں نکالوا کر محل کے صحن میں ڈھیر لگوادیا۔ پھر وہ انہیں دیکھ کر دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔ اگلے روز اس نے اپنی فوج کو شو آف کے لیے، معائنے کے لیے صف آرا کروایا۔
جس میں اس کے سامنے سے ایک لاکھ پیدل فوج، پچاس ہزار گھڑ سوار اور تیرہ سو ہاتھی گزرے۔ محمود غزنوی اپنے پلنگ پر ٹیک لگائے بھیٹا تھا یہ سب دیکھتا تھا اور آنسو بہاتا جاتا تھا۔ اس کے اگلے دن، انتیس اپریل ایک ہزار تیس کو تریسٹھ برس کی عمر میں محمود غزنوی انتقال کر گیا۔ افغان شہر غزنی میں یہ عمارت ایک مقبرہ ہےاور اسے قصر فیروزی کہتے ہیں، اس کے اصل دروازے اب موجود نہیں ہیں کیونکہ آپ جان چکے ہیں کہ انھیں انگریز اکھاڑ کر ہندوستان لے آئے تھے اور اب یہ آگرہ کے قلعے میں محفوظ ہیں۔ اسی مقبرے میں سلطان محمود غزنوی محوخواب ہے۔ اس کے لیے کچھ بھی کرنے کو تیار تھا۔ تو دوستوں یہ تو تھی اس سلطان کی کہانی جس نے ہندوستان پر 17 حملے کیے۔