Second Anglo-Afghan War part 1
پاکستان میں جمرود سے تقریباً پندرہ کلومیٹر دور خیبرپاس کے اندر ایک مقام ہے جسے علی مسجد کہا جاتا ہے۔ سکرین پر نظر آنے والے مقام پر، اس جگہ تقریباً ایک سو چالیس سال پہلے ایک اہم ملاقات ہوئی تھی اور ایک انکار ہوا تھا۔ اس ملاقات اور انکار نے موجودہ پاکستان اور افغانستان کا جغرافیہ ہمیشہ کیلئے بدل کر رکھ دیا تھا۔ آج کا پاک، افغان بارڈر جسے پہلے ڈیورنڈ لائن کہا جاتا تھا وہ اسی ملاقات اور انکار کا نتیجہ ہے۔ لیکن کس نے، کسے اور کیوں انکار کیا؟ برطانیہ کا افغانستان توڑنے کا پلان کیا تھا اور یہ پلان کیسے ناکام ہوا؟ اس وقت کی گریٹ گیم میں روس کیا کر رہا تھا؟
مائی کیوریس فیلوز اٹھارہ سو اٹھہتر، ایٹین سیونٹی ایٹ میں علی مسجد کا علاقہ افغانستان کا حصہ تھا۔ علی مسجد میں ایک پہاڑی پر افغان فوج کا قلعہ تھا جس کی حفاظت کیلئے درجنوں توپیں نصب تھیں۔ اس چوکی کے کمانڈر کا نام جنرل فیض محمد تھا۔ ہوا یہ کہ ستمبر اٹھارہ سو اٹھہتر، ایٹین سیونٹی ایٹ میں ایک انگریز، جنرل فیض کو ملنے آ گیا۔ بظاہر یہ عام سی ملاقات تھی لیکن اس کے نتائج کتنے تاریخی اور دور رس ہونے جا رہے تھے اس کا دونوں کو ہی اندازہ نہیں تھا۔ اس ملاقات کا بیک گراؤنڈ یہ تھا کہ برطانیہ کے دشمن روس نے افغانستان کے سرحدی ملک ازبکستان کو فتح کر لیا تھا۔
اس وقت دوست محمد کے بیٹے شیر علی افغانستان کے امیر تھے۔ روسیوں نے شیر علی کو مجبور کیا کہ وہ ان کے ایک سفارتی مشن کو کابل میں ویلکم کریں۔ اس مشن کو بھیجے جانے کا مقصد یہ تھا کہ کابل حکومت روسیوں کے کنٹرول میں آ جائے اور اپنی خارجہ پالیسی کو روسیوں کے کہنے کے مطابق چلائے۔ شیر علی اس سفارتی مشن کے خلاف تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ اس وفد کی آمد سے برطانیہ ناراض ہو گا اس کی وجہ صاف تھی کہ برطانیہ، افغانستان میں کسی بھی روسی مداخلت کو برطانوی ہندوستان کیلئے خطرہ سمجھتا تھا۔
اسی وجہ سے تقریباً چالیس برس پہلے افغانوں اور انگریزوں میں ایک جنگ بھی ہو چکی تھی جس کی کہانی آپ پچھلی تین اقساط میں دیکھ چکے ہیں۔ تو شیرعلی نے انگریزوں کی ناراضی کے خدشے سے روسی وفد کی آمد کو ٹالنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ ان کا خیال تھا کہ برطانوی دباؤ کی وجہ سے یہ وفد کابل پہنچے گا ہی نہیں۔ لیکن روس نے شیرعلی کے تاخیری حربے نظرانداز کر دیئے اور جولائی کے آخر میں روسی وفد کابل پہنچ گیا۔ اگرچہ یہ وفد زیادہ دیر کابل میں ٹھہر نہیں سکا اور محض ایک ماہ بعد اکیس اگست کو کابل سے واپس روس چلا گیا لیکن دوستو اس ڈیلیگیشن کی آمد سے انگریزوں کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی کہ افغان امیر شیر علی، روسیوں سے رابطے میں ہیں اور برطانوی ہندوستان کے خلاف سازش کر رہے ہیں۔
انگریزوں نے فوری طور پر شیر علی کو یہ پیغام بھیجا کہ وہ بھی اپنا سفارتی مشن کابل بھیج رہے ہیں۔ شیر علی روسی مشن کی طرح اس مشن کو بھی ویلکم کریں لیکن دوستو شیر علی اس مشن کو قبول کرنے کیلئے تیار نہیں تھے کیونکہ یہ محض ایک روایتی سفارتی مشن نہیں تھا یہ تو سیدھا سیدھا افغانوں کو ڈکٹیشن دینے آ رہا تھا۔ انگریز کابل میں اپنا ایسا سفارتی نمائندہ بٹھانا چاہتے تھے جو کابل حکومت کو تاج برطانیہ کی مرضی کے مطابق چلایا کرے۔ خاص طور پر اس طرح کہ روس کے قریب تو افغانستان کبھی نہ جا سکے۔
اب شیر علی ٹھہرے ایک خودمختار حکمران، انہیں روس کی طرح برطانیہ کی ڈکٹیشن بھی کسی صورت قبول نہیں تھی۔ چنانچہ انہوں نے برطانوی سفارتی مشن کو اپنے ملک میں داخلے کی اجازت دینے سے صاف انکار کر دیا۔ انگریزوں نے شیر علی کے انکار کو اپنی توہین سمجھا اور طاقت کا استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے اپنا ایک سفارتی مشن دو سو فوجیوں کے پہرے میں جمرود بھیجا تاکہ وہ درہ خیبر کے راستے افغانستان میں داخل ہونے کی کوشش کرے۔ درہ خیبر میں افغانوں کی سب سے اگلی سرحدی چوکی یہی علی مسجد تھی۔ تو اسی علی مسجد چوکی کو پار کرنے کیلئے وہ ملاقات ہوئی تھی جس کا ہم نے ویڈیو کے شروع میں ذکر کیا ہے۔