Second Anglo-Afghan War part 2

Second Anglo-Afghan War part 2

واقعہ یہ ہوا کہ سفارتی مشن کے ایک نمائندے لوئیس کواگناری ایک چھوٹی سی فورس کے ساتھ علی مسجد چوکی کے انچارج جنرل فیض سے ملنے چلے آئے۔ ملاقات میں صرف چند باتیں ہوئیں اور وہ بھی بہت دو ٹوک انداز میں۔ لوئیس کواگناری نے جنرل فیض سے پوچھا، کیا افغان امیر یعنی شیر علی برطانوی مشن کو کابل جانے کیلئے محفوظ راستہ دیں گے؟ جنرل فیض کا جواب تھا، ہرگز نہیں، ابسولوٹلی ناٹ۔ نمائندے نے پھر پوچھا کیا آپ ہمارے وفد کو کابل جانے سے طاقت کے زور پر روکنے کی کوشش کریں گے؟

جنرل فیض نے جواب دیا، ہاں اور اس بات کو بھی میری مہربانی ہی سمجھنا کہ میں تم سے پرامن طریقے سے بات کر رہا ہوں۔ ورنہ جس طرح تم بغیر اجازت مجھ سے ملنے چلے آئے ہو، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ میں ابھی تم پر فائر کھول دیتا۔ بس ان چند باتوں کے ساتھ یہ ملاقات ختم ہو گئی۔ اور انگریز مشن ناکام ہو کر خاموشی سے واپس چلا گیا۔ لیکن یہ خاموش واپسی دراصل دوسری اینگلو افغان جنگ کا اعلان تھا۔ مائی کیوریس فیلوز یہ انگریزوں کی گریٹ گیم کے لیے یہ بہت بڑا دھچکا تھا کہ افغانستان جس کے لیے وہ ایک مہنگی اور خون آشام جنگ لڑ چکے تھے اب ان کے دشمن روس کی جھولی میں گر رہا تھا۔

سو انگریزوں نے طے کر لیا کہ وہ افغان امیر شیر علی کو مزا چکھائیں گے اور افغانستان کو کئی حصوں میں بانٹ دیں گے۔ انگریزوں کا منصوبہ یہ تھا کہ افغانستان کو تین ٹکڑوں میں بانٹ دیا جائے۔ ایک ٹکڑا قندھار ہو، جو برطانیہ کی نگرانی میں ایک آزاد ریاست بنا دیا جائے۔ دوسرا ٹکڑا ہرات، جسے ایران کے کنٹرول میں دے دیا جائے۔ جبکہ کابل اور باقی افغانستان کی حکومت شیر علی کے علاوہ انگریزوں کے کسی حامی سردار کے حوالے کر کے تیسرا بڑا ٹکڑا کر دیا جائے۔ اس منصوبے پر عمل کرنے کیلئے تین برطانوی فوجوں نے بیک وقت افغانستان پر حملہ آور ہونا تھا۔

ایک فوج نے جنرل سیموئیل براؤن کی کمان میں خیبر پاس کے راستے جلال آباد کی طرف بڑھنا تھا۔ دوسری فوج کو جنرل فریڈرک رابرٹس کی کمان میں کابل کی طرف جانا تھا۔ اس فوج نے وادی کرم سے پیوار کوتل پاس کے راستے افغانستان میں داخل ہونا تھا۔ اس طرح وہ سیدھے افغان صوبے پکتیا پہنچ جاتے اور کابل ان کی پہنچ میں آ جاتا۔ وادی کرم جو اب خیبرپختونخوا کا حصہ ہے اس کا زیادہ تر علاقہ بھی تب افغانستان کا حصہ تھا۔ تو خیر تیسری انگریز فوج نے جنرل اسٹیورٹ کی کمان میں کوئٹہ کے راستے قندھار کو فتح کرنا تھا۔

انگریزوں نے شیر علی کو الٹی میٹم بھیجا کہ وہ بیس نومبر تک برطانوی مشن کو کابل میں داخلے کی اجازت دے دیں ورنہ جنگ کیلئے تیار ہو جائیں۔ اس الٹی میٹم کی مدت پوری ہونے سے پہلے تینوں برطانوی فوجیں اپنے ٹارگٹس کے قریب پہنچ کر حملے کیلئے تیار ہو گئیں۔ پہلی فوج نے علی مسجد کے قریب شگئی یا شاہ دسگئی کے پہاڑی سلسلے میں کیمپ لگا لئے۔ اس جگہ بعد میں پھر انگریزوں نے انیس سو ستائیس، نائنٹین ٹوئنٹی سیون میں ایک قلعہ بھی تعمیر کروایا تھا۔ یہ قلعہ یعنی شگئی فورٹ آج بھی موجود ہے۔

ادھر پہلی انگریز فوج شگئی پہنچ چکی تھی تو دوسری طرف جنرل رابرٹس وادی کرم میں داخل ہو کر کوتل پاس کے قریب آن پہنچے تھے۔ افغانوں نے وادی میں اس فوج کی مزاحمت نہیں کی اور کوتل پاس پر مورچے سنبھال کر حملے کا انتظار کرنے لگے۔ جبکہ تیسری انگریز فوج بلوچستان کے راستے قندھار کی جانب روانہ ہو گئی۔ اب دیکھیں کہ انگریز تو اپنی فورسز کو حملے کیلئے تیار کر رہے تھے لیکن دوسری طرف افغان امیر کی طرف سے مکمل خاموشی تھی۔ شیر علی کسی وجہ سے انگریزوں کے الٹی میٹم کا جواب نہیں دے رہے تھے۔

بیس نومبر کو انگریزوں کی ڈیڈلائن ایکسپائر ہو گئی۔ اس کے اگلے روز اکیس نومبر، ٹوئنٹی فرسٹ نومبر اٹھارہ سو اٹھہتر، ایٹین سیونٹی ایٹ کو برطانیہ نے افغانستان پر حملہ کر دیا۔ دوستو دوسری اینگلو افغان جنگ شروع ہو چکی تھی۔ جنرل سیموئیل جنہیں درہ خیبر فتح کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تھی انہوں نے حملے سے پہلے ایک اہم قدم اٹھایا۔ انہوں نے مقامی قبائلیوں کو بھرتی کر کے ایک فورس قائم کی جسے خیبر جیزائلچیز کا نام دیا گیا۔ قبائلیوں کی روایتی ایک کلومیٹر رینج والی بندوق جزایل ہی کی وجہ سے انھیں یہ نام دیا گیا تھا۔ یہ وہی فورس ہے جسے اب خیبر رائفلز کہا جاتا ہے۔ اس فورس میں زیادہ تر آفریدی قبائل کے لوگ شامل تھے۔

Part 3

About admin

Check Also

Hazara Wars in Afghanistan p6

Hazara Wars in Afghanistan p6

Hazara Wars in Afghanistan p6 He writes that the Hazara people always sided with foreign …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

MENU

Stv History