Second Anglo-Afghan War part 3

Second Anglo-Afghan War part 3

آفریدی قبائل کی مدد سے برطانوی فوج نے افغان سرحدی قلعے علی مسجد پر دھاوا بول دیا۔ یہ وہی جگہ تھی جہاں سے برطانوی نمائندے کو ناکام لوٹایا گیا تھا۔ اس لئے اس قلعے کو فتح کر کے انگریز ایک علامتی فتح بھی حاصل کرنا چاہتے تھے۔ علی مسجد کا قلعہ برطانوی فوجی کیمپ سے زیادہ دور نہیں تھا۔ چنانچہ اکیس نومبر کو برطانوی فوج نے تیزی سے پیش قدمی کی اور اس قلعے پر شدید بمباری شروع کر دی۔ پورا دن بمباری ہوتی رہی۔ جب رات ہوئی تو افغان فورسز نے قلعہ خالی کر دیا۔ انگریزوں کے اتحادی آفریدیوں نے پسپا ہوتی ہوئی افغان فورسز کا دور تک پیچھا کیا اور انہیں خاصا نقصان پہنچا کر لوٹ آئے۔

اگلے روز انگریزوں نے علی مسجد کے خالی قلعے پر قبضہ کر لیا۔ یہ علی مسجد قلعے کی تصویر انگریزوں کے قبضے کے بعد بنائی گئی تھی۔ بعد میں انگریزوں نے اس جگہ ایک نیا قلعہ تعمیر کیا جو آج بھی موجود ہے۔ افغان فوج علی مسجد سے پسپا ہوتے ہوئے اپنی بہت سی توپیں بھی قلعے میں چھوڑ گئی تھی۔ جو ظاہر ہے اب انگریزوں کے قبضے آ گی۔ اس کے علاوہ کئی افغان سپاہیوں کو قیدی بھی بنایا گیا۔ اس فتح نے برطانوی فوج کا مورال بہت بلند کر دیا اور فوجی جلد مزید کامیابیوں کی توقع کرنے لگے۔ برطانوی نیوز آرگنائزیشن رائٹرز ٹیلی گرام نے اس فتح کو یوں رپورٹ کیا کہ علی مسجد کو فتح کر لیا گیا ہے۔

یہ ایک شاندار پیش قدمی ہے، افغان پسپا ہو گئے ہیں۔ دوستو علی مسجد پر برطانوی حملے سے پہلے ایک اور پیشرفت بھی ہو چکی تھی جو کچھ عرصہ پہلے ہو جاتی تو غالباً یہ جنگ شروع ہی نہ ہوتی۔ وہ یہ کہ شیر علی نے انگریزوں کو یہ پیغام بھیج دیا تھا کہ وہ برطانوی مشن کو عارضی طور پر کابل میں ٹھہرانے پر تیار ہیں۔ لیکن ہوا یہ کہ اس پیغام کے انگریزوں تک پہنچنے سے پہلے ہی برطانوی فوج علی مسجد پر قبضہ کر چکی تھی۔ اس فتح کے بعد انگریزوں نے تیزی سے پیش قدمی کی اور اگلے ماہ دسمبر میں وہ جلال آباد پر بھی قابض ہو چکے تھے۔

اب ان کی نظریں جنرل رابرٹس پر تھیں کیونکہ ان کا مشن علی مسجد کے قریب ہی تھا لیکن اس سے کہیں زیادہ مشکل مشن تھا۔ کوتل پاس گیارہ ہزار تین سو فٹ بلند درہ تھا۔ دشوار گزار پہاڑی راستوں اور برفباری نے اس پر چڑھائی کو انتہائی مشکل بنا دیا تھا۔ پھر اس بلند درے پر ہزاروں افغان سپاہی اپنی بھاری توپوں کے ساتھ انگریزوں کی پیش قدمی کا انتظار کر رہے تھے۔ جنرل رابرٹس کو معلوم تھا کہ اس درے پر حملے کا مطلب خودکشی ہے۔ لیکن وہ ایک ہوشیار کمانڈر تھے۔ انہوں نے افغانوں پر سامنے سے حملہ کرنے کے بجائے ایک مشکل پہاڑی راستے سے لمبا چکر کاٹ کر دائیں اور بائیں رائٹ اور لیفٹ دونوں طرف سے دشمن پر حملہ کر دیا۔

ان حملہ آوروں سے افغانوں کی توجہ ہٹانے کیلئے پہاڑوں کے نیچے برطانوی کیمپ میں موجود توپخانے نے بھی افغان پوزیشنز پر فائر کھول دیا۔ تاکہ وہ پیچھے سے آتی ہوئی فوج کی طرف متوجہ نہ ہو سکیں۔ افغان آخر وقت تک یہی سمجھتے رہے کہ اصل حملہ سامنے سے ہو گا۔ انہیں خطرے کا احساس تب ہوا جب برطانوی فوج کے گورکھا سپاہی ان کی پوزیشنز کے بالکل قریب پہنچ چکے تھے۔ پھر بھی افغانوں نے مقابلے کی پوری کوشش کی اور دونوں طرف سے شدید فائرنگ کا تبادلہ ہوتا رہا۔ افغان پوزیشنز پر قبضے کی کوشش میں کئی برطانوی فوجی مارے گئے۔

لیکن آخرکار برطانوی فوجی افغان مورچوں میں داخل ہو گئے اور سنگینوں سے افغانوں کو ہلاک کرنا شروع کر دیا افغانوں نے بھی سنگینوں کا جواب سنگینوں سے دنیا شروع کیا۔ دست بدست لڑائی ہوئی لیکن آخر میں میدان انگریزوں کے ہاتھ رہا۔ افغان فوج بھاگ نکلی اور اس درے پر برطانوی فوج کا قبضہ ہو گیا۔ یہ اتنی بڑی فتح تھی کہ جب اس کی خبریں لندن پہنچیں تو ملکہ وکٹوریہ اور برٹش پارلیمنٹ نے بھی جنرل رابرٹس کو تعریفی خطوط لکھے۔ ادھر جنرل اسٹیورٹ کی کمان میں تیسری برطانوی فوج بلوچستان کے راستے کچھ تاخیر سے قندھار پہنچی۔ آٹھ جنوری، اٹھارہ سو اناسی، ایٹین سیونٹی نائن کو اس فوج نے قندھار پر قبضہ کر لیا۔ کچھ عرصے بعد انگریزوں نے قندھار سے پیش قدمی کر کے ایک سو بیس کلومیٹر دور گرشک کے علاقے پر بھی قبضہ کر لیا۔

Part 4

About admin

Check Also

Hazara Wars in Afghanistan p6

Hazara Wars in Afghanistan p6

Hazara Wars in Afghanistan p6 He writes that the Hazara people always sided with foreign …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

MENU

Stv History