Second Anglo-Afghan War part 5
برطانیہ نے صلح کیلئے چودہ نکات پر مشتمل ایک معاہدہ تیار کیا تھا۔ بنیادی طور پر یہ ایک ڈکٹیشن تھی جسے فاتح انگریز، ہارے ہوئے افغانوں پر ٹھونس رہے تھے۔ ان شرائط میں لکھا گیا تھا کہ افغان سلطنت کا ایک بڑا علاقہ یعنی خیبر پاس، وادی کرم اور موجودہ بلوچستان کے بہت سے علاقے برطانیہ کے حوالے کئے جائیں گے۔ افغانستان کی خارجہ پالیسی برطانوی ہندوستان کی حکومت چلائے گی۔ ایک برطانوی مشن کو کابل میں مستقل طور پر ٹھہرایا جائے گا جو افغان حکومت کو برطانوی مفادات کے مطابق ڈکٹیٹ کرے گا۔
ان شرائط پر عمل کے بدلے میں انگریز یعقوب خان کو سالانہ چھے لاکھ روپے یا ساٹھ ہزار پاؤنڈز سبسڈی دیں گے اس کے علاوہ انگریزوں کے قبضے والے جلال آباد اور قندھار شہر بھی افغانوں کو واپس مل جائیں گے۔ یعقوب خان نے یہ تمام شرائط من و عن تسلیم کر لیں۔ یوں چھبیس مئی اٹھارہ سو اناسی، ایٹین سیونٹی نائن کو امن معاہدے پر دستخط ہو گئے۔ دوستو یہ افغانستان کی جدید تاریخ کا شاید سب سے ذلت آمیز معاہدہ تھا۔ اس معاہدے کے تحت افغانستان کا برٹش انڈیا کے ساتھ بارڈر جو پہلے علی مسجد تک تھا وہ پیچھے ہٹ کر طورخم پر شفٹ ہو گیا۔
موجودہ وادی کرم کا سارا علاقہ بھی انگریزوں کے قبضے میں آ گیا۔ اس کے علاوہ ایک اور اہم بات یہ ہوئی کہ بلوچستان کا بھی ایک بہت بڑا علاقہ انگریزوں کو ملا۔ اس کی تفصیل کیا تھی؟ وہ اس طرح مائی کیوریس فیلوز کہ یہ آپ کے سامنے احمد شاہ ابدالی کے افغان ایمپائر کا نقشہ ہے۔ اس میں بلوچستان کی ریاست قلات سمیت بلوچستان کا پورا علاقہ درانی ایمپائر کا حصہ تھا۔ درانی ایمپائر کے زوال کے بعد انگریزوں نے اٹھارہ سو انتالیس، ایٹین تھرٹی نائن میں ہی ریاست قلات پر قبضہ کر لیا۔ لیکن اس ریاست کے شمال مشرق میں واقع بہت سے علاقے ابھی ان کے کنٹرول میں نہیں آئے تھے۔
یہاں پشتونوں کی اکثریت تھی اور درانی ایمپائر کے دور سے یہ علاقے افغانستان کا حصہ تھے۔ تاہم معاہدہ گندامک کے تحت یہ علاقے بھی افغانوں نے انگریزوں کو سرنـڈر کر دیئے۔ ان علاقوں میں پشین، سبی اور لورالائی سمیت کوئٹہ کے شمال اور مشرق کے تمام پشتون علاقے شامل تھے۔ یہ سب برطانوی ہندوستان کا حصہ بن گئے۔ یعنی انگریز اب قانونی طور پر بلوچستان کے زیادہ تر حصے کے مالک تھے۔ تاہم چاغی سمیت کچھ سرحدی علاقے اب بھی افغانوں کے کنٹرول میں تھے۔ یہ علاقے پھر اٹھارہ سو ترانوے، ایٹین نائنٹی تھری میں انگریزوں کو ملے تھے جب ڈیورنڈ لائن کھینچی گئی تھی۔
ڈیورنڈ لائن انہی علاقوں کو برٹش انڈیا کا حصہ بنانے کیلئے بنی تھی جو معاہدہ گندامک کے تحت افغانوں نے انگریزوں کے حوالے کئے تھے۔ اپنا علاقہ کھونے کے علاوہ معاہدہ گندامک کے تحت افغانوں نے ایک اور نقصان بھی اٹھایا۔ وہ یہ کہ معاہدے کے مطابق افغانوں کی خارجہ پالیسی بھی انگریزوں کے قبضے میں چلی گئی۔ یعنی افغان بظاہر آزاد تھے لیکن ان کی خارجہ پالیسی انگریزوں کی گریٹ گیم کے تحت تھی جس کے فیصلے کابل میں نہیں بلکہ لندن میں ہونا تھے۔
معاہدہ گندامک پر دستخط کے کچھ ہی عرصے بعد انگریز فوج افغانستان سے نکل گئی۔ مائی کیوریس فیلوز معاہدہ گندامک افغانوں کی بہت ہی بڑی شکست تھی۔ انگریز اپنی تمام شرائط منوانے میں کامیاب رہے تھے جبکہ اس کے مقابلے میں افغانوں نے اپنا علاقہ اور آزادی دونوں کھو دی تھیں۔ افغانوں کی پوری تاریخ میں کسی غیرملکی حملہ آور فوج نے اتنی تیزی اور آسانی سے اتنی بڑی فتح حاصل نہیں کی تھی۔ لیکن دوستو یہ معاہدہ انگریزوں کی عارضی کامیابی تھی کیونکہ افغانوں کی نظر میں یہ جنگ ختم نہیں ہوئی تھی۔
افغانوں نے اس سے پہلے سکھوں کے ہاتھوں موجودہ خیبرپختونخوا کا علاقہ گنوایا تھا۔ ابھی اس شکست کے زخم تازہ تھے کہ انگریزوں نے مزید سرحدی اور بلوچ علاقے بھی چھین لئے تھے۔ اس نئی قومی ہزیمت نے افغانوں کی زخمی انا کو اور بھی گھائل کر دیا۔ افغان عوام کے دلوں میں نفرت اور بدلے کا لاوا جو برسوں سے پک رہا تھا اس نے ایک دہکتے ہوئے جوالا مکھی کی شکل اختیار کر لی۔ سو ایک روز یہ لاوا ایسا پھٹا کہ لندن بھی دہلنے لگا۔