Second Anglo-Afghan War part 6
مائی کیوریس فیلوز معاہدہ گندامک کے تحت انگریزوں نے اپنا ایک مشن کابل میں تعینات کر دیا تھا۔ اس مشن کے سربراہ سر لوئیس کواگناری تھے جنہوں نے معاہدہ گندامک کروانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ ان کی خدمات کے بدلے میں انہیں سر کا خطاب دیا گیا اور برطانوی مشن کا سربراہ بنا کر کابل بھیج دیا گیا۔ لوئیس کواگناری چوبیس جولائی اٹھارہ سو اناسی، ایٹین سیونٹی نائن کے روز کابل پہنچے۔ ان کے ساتھ ایک ڈاکٹر، ایک ملٹری اتاشی اور ہندوستانی سپاہیوں کا ایک دستہ تھا جس میں پچیس گھڑ سوار اور پچاس پیدل فوجی شامل تھے یعنی اس مشن کے کُل افراد ایک سو سے بھی کم تھے۔
حفاظتی دستے کے سپاہیوں میں پـٹھان اور سکھ سپاہی بھی شامل تھے۔ برطانوی مشن کو قلعہ بالا حصار کے قریب ہی ایک پرانی سرائے میں ٹھہرایا گیا۔ بظاہر یہ مشن افغانوں کو ڈکٹیٹ کرنے کے مقصد سے آیا تھا مگر یہ کابل میں زیادہ عرصہ سروائیو نہیں کر سکا۔ برطانوی مشن کی کابل میں انٹری کے ساتھ ہی اس کے خلاف عوامی مزاحمت بھی شروع ہو گئی تھی۔ بہت سے افغان سردار تو معاہدہ گندامک کی شرائط سے اس قدر ناراض تھے کہ وہ برطانوی مشن سے رسمی طور پر بھی ملنے نہیں آئے۔ افغان عوام کی اکثریت امیر یعقوب خان کو بھی انگریزوں کی کٹھ پتلی سمجھنے لگی تھی۔
کابل کے قریب کوہِ دمن کے علاقے کے لوگوں نے تو یعقوب خان کوٹیکس دینے سے بھی انکار کر دیا۔ ان کا کہنا تھا جب تک برطانوی مشن سے لکھا ہوا حکمنامہ نہیں ملے گا وہ ٹیکس نہیں دیں گے۔ یعنی افغان عوام انگریزوں کو ہی افغانستان کا اصل حکمران سمجھ رہے تھے اور یعقوب خان کو کوئی اہمیت نہیں دے رہے تھے۔ یعنی وہ انگریزوں اور یعقوب خان دونوں سے نفرت کر رہے تھے۔ کابل شہر میں برطانوی مشن کے خلاف کھلے عام باتیں ہو رہی تھیں۔ ایسی فضاء بن چکی تھی جو برطانوی مشن کیلئے خطرناک تھی۔ تاہم برطانوی مشن اس امڈتے ہوئے خطرے کو سمجھ نہیں پا رہا تھا۔
مشن کے سربراہ لوئیس کواگناری کو کسی ہمدرد نے بتایا بھی کہ افغان آپ کے خلاف باتیں کر رہے ہیں، آپ پر حملے کا خطرہ ہے۔ لیکن کواگناری نے حقارت سے کہا جو بھونکتے ہیں وہ کاٹتے نہیں۔ اس جواب پر خبردار کرنے والا شخص بولا کہ جناب یہ بھونکتے بھی ہیں اور کاٹتے بھی ہیں۔ ذرا ہوشیار رہیے گا۔ اس پر لوئیس کواگناری کا کہنا تھا کہ اگر افغانوں نے ہم پر حملہ بھی کیا تو وہ زیادہ سے زیادہ کیا کر لیں گے؟ یہی ہو گا کہ مشن میں موجود کچھ یورپی مارے جائیں گے لیکن ہماری حکومت ہماری موت کا بھرپور انتقام لے گی۔
اب دیکھا جائے تو یہ لوئیس کواگناری کی نسل پرستی ہی تھی کہ وہ صرف یورپی لوگوں کی موت کا ذکر کر رہے تھے حالانکہ اس مشن میں ہندوستانی سپاہی بھی شامل تھے صرف انگریز نہیں تھے۔ بہرحال کواگناری کا اطمینان ایک خوش فہمی تھی، جو افغانوں کی نفرت کے باعث جلد ہی ہوا ہونے والی تھی۔ برطانوی مشن کی آمد کے کچھ ہی روز بعد ہرات اور بلخ سے افغان فوجیوں کے کچھ دستے کابل پہنچے۔ ان فوجیوں کو بہت عرصے سے تنخواہیں نہیں ملی تھیں اس لئے وہ ہنگامہ آرائی پر تُلے ہوئے تھے۔
ان لوگوں نے کابل شہر کے باہر اپنا کیمپ لگا لیا اور افغان امیر یعقوب خان سے اپنی تںخواہوں کی ادائیگی کا مطالبہ کرنے لگے۔ لیکن افغان خزانہ تو خالی تھا، یعقوب خان انہیں تنخواہ کہاں سے دیتے۔ جب فوجیوں کو ان کے افسروں نے بتایا کہ خزانہ خالی ہونے کہ وجہ سے انہیں تنخواہ نہیں مل سکتی تو فوجی مشتعل ہو گئے۔ انہوں نے اپنے افسروں کو پتھر مارنا شروع کر دیئے۔ افسروں نے بھاگ کر قلعہ بالاحصار میں یعقوب خان کے پاس پناہ لے لی۔
فوجیوں نے قلعے پر حملہ کر دیا لیکن قلعے کی مضبوط دیواروں کو کراس نہ کر سکے۔ دیواروں پر یعقوب خان کے عرب غلام کھڑے تھے جنہوں نے فائرنگ کر کے فوجیوں کو پیچھے دھکیل دیا۔ جب فوجیوں نے دیکھا کہ یعقوب خان تک پہنچنا مشکل ہے تو ان میں سے کسی نے نعرہ لگایا کہ اگر یعقوب خان تنخواہ نہیں دیتا تو آؤ اس کے امیر فرنگی دوستوں سے تنخواہ وصول کرتے ہیں۔ کچھ فوجیوں نے اس سرائے کو گھیر لیا جس میں برطانوی مشن کی رہائش تھی۔ نعرے بازی سے شروع ہونے والا یہ گھیراؤ جلد ہی حملے میں بدل گیا۔