Second Anglo-Afghan War part 7

Second Anglo-Afghan War part 7

حملے کی شروعات یوں ہوئی کہ کچھ افغان فوجیوں نے عمارت کے اصطبل میں داخل ہو کر لوٹ مار شروع کر دی اصطبل کی حفاظت پر تعینات ہندوستانی سپاہیوں نے ان فوجیوں پر فائر کھول دیا۔ اس فائرنگ سے کئی حملہ آوور افغان سپاہی ہلاک یا زخمی ہوئے۔ باقی بھاگ نکلے اور اپنے کیمپ میں پہنچ کر شور مچا دیا کہ ان پر حملہ ہو گیا ہے، حملہ ہو گیا ہے۔ ذرا سی دیر میں سینکڑوں افغان فوجی مشن کی عمارت پر ٹوٹ پڑے اور لڑائی شروع ہو گئی۔

ادھر کابل شہر میں علماء نے مساجد کے میناروں پر چڑھ کر یہ اعلانات کرنا شروع کر دیئے کہ عوام بھی اس حملے میں فوجیوں کا ساتھ دیں۔ چنانچہ ہزاروں کی تعداد میں عام شہری بھی مشن کی عمارت تک پہنچ گئے اور حملے میں شامل ہو گئے۔ مشن کی حفاظت پر تعینات برطانوی اور ہندوستانی فوجی تعداد میں بہت کم تھے وہ عمارت میں محصور ہو گئے۔ افغان سپاہیوں نے عمارت کا مرکزی دروازہ توڑ دیا اور ایک توپ اندر لا کر مرکزی عمارت پر بمباری شروع کر دی۔

 

بمباری سے عمارت کو شدید نقصان پہنچا اور اس کے محافظ ہندوستانی سپاہی بھی مارے گئے۔ حملے کے دوران ایک موقعے پر لوئیس کواگناری نے افغان سپاہیوں کو چھے ماہ کی تنخواہ دینے کی پیشکش بھی کر دی۔ لیکن اس پیشکش کو سننے اور قبول کرنے کا ماحول نہیں تھا۔ افغان حملہ آوور اندر داخل ہوئے اور انھوں نے لوئیس کواگناری اور دیگر انگریزوں کو قتل کر کے مشن کی عمارت کو آگ لگا دی۔ البتہ افغانوں نے مشن کے سکھ سپاہیوں کو جان سے مارنے سے پہلے ایک شرط رکھی۔

انھوں نے کہا کہ اگر سکھ فوجی مسلمان ہو جائیں تو انھیں زندہ چھوڑ دیا جائے گا۔ سکھ سپاہیوں نے انکار کیا اور لڑتے ہوئے ایک ایک کر کے مارے گئے۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ سکھوں کو مسلمان ہونے کی آفر دینے والے افغانوں نے ہندوستانی دستے کے مسلمان سپاہیوں کو ہرگز زندہ نہیں چھوڑا۔ سب کو مار دیا۔ دوستو اس حملے کے وقت افغان بادشاہ یعقوب خان برطانوی مشن کے قریب ہی اپنے محل میں موجود تھے۔ لیکن بے بس تھے۔

کیونکہ وہ تو خود کچھ عرب غلاموں کی حفاظت میں بڑی مشکل سے اپنی جان بچائے بیٹھے تھے۔ پھر برطانوی مشن پر حملے کے دوران فوجیوں اور عام افغانوں نے قلعہ بالاحصار کو گھیرے رکھا تھا تاکہ یعقوب خان انگریزوں کی مدد نہ کر سکیں۔ اس کے باوجود امیر یعقوب خان ہجوم سے بار بار اپیلیں کرتے رہے کہ وہ برطانوی مشن کو جان سے نہ ماریں۔ انہوں نے اپنے کچھ بیٹوں اور سرداروں کو قرآن پاک دے کر حملہ آوروں کے پاس بھیجا۔

کابل کے سید گھرانے کے افراد جن کا افغان بہت احترام کرتے تھے انہوں نے بھی اور یعقوب خان کے حامی کچھ علماء نے بھی ہجوم سے پرسکون رہنے کی اپیلیں کیں۔ ایک افغان کمانڈر جنرل داؤد شاہ بھی حملہ آوروں کو سمجھانے گئے۔ لیکن حملہ آوروں کے سر پر تو خون سوار تھا۔ ان پر کسی درخواست کا کوئی اثر نہیں ہوا۔ الٹا انہوں نے جنرل داؤد شاہ کو بھی زخمی کر کے بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ قصہ مختصر کہ تنخواہیں نہ ملنے پر ناراض افغان سپاہیوں نے اپنا سارا غصہ برطانوی مشن کو مار کر نکال لیا۔ برطانوی مشن سے صرف دو سپاہی جان بچا کر بمشکل فرار ہونے میں کامیاب ہوئے۔

دوستو یہ جو مونومنٹ آپ دیکھ رہے ہیں یہ پاکستان کے شہر مردان میں واقع ہے۔ یہ ہندوستانی گائیڈز انفنٹری کے ان سپاہیوں کی یادگار ہے جو اسی افغان حملے میں مارے گئے تھے۔ لندن کے نیشنل آرمی میوزیم میں ایک انگریز لیفٹیننٹ والٹر پولوک کا مجسمہ بھی موجود ہے جو اس حملے میں ہلاک ہوئے تھے۔ کابل میں برطانوی مشن پر حملے کے دو روز بعد شملہ میں جنرل رابرٹس اپنے گھر میں سو رہے تھے۔ رات ایک بجے بیگم نے انہیں نیند سے جگا کر بتایا کہ ان کا کوئی ضروری ٹیلیگرام آیا ہے۔ وہ فوری کمرے سے نکلے اور ٹیلیگرام پڑھا۔ یہ ٹیلیگرام کابل میں موجود خفیہ برٹش ایجنٹس کی طرف سے بھیجا گیا تھا۔

اس میں یہ خوفناک خبر تھی کہ کابل کا برطانوی مشن اب نہیں رہا۔ ٹیلیگرام پڑھ کر جنرل رابرٹس سمجھ گئے کہ افغانستان کا آتش فشاں پھٹ پڑا ہے اور اب اسے ٹھنڈا کرنے کیلئے انہیں خود افغانستان جانا ہو گا۔ انہوں نے فوری طور پر افغانستان روانگی کی تیاریاں شروع کر دیں۔ انگریزوں اور افغانوں کی دوسری جنگ، سیکنڈ اینگلو افغان وار اپنے فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہونے والی تھی۔ اس فیصلہ کن مرحلے میں جیت کس کی ہوئی؟ میوند کی لڑائی افغانوں اور انگریزوں کیلئے یادگار کیوں بن گئی؟ چند ہزار انگریزوں اور ہندوستانیوں نے ایک لاکھ افغانوں کا سامنا کیسے کیا؟ یہ سب آپ کو دکھائیں گے لیکن ہسٹری آف افغانستان کی اگلی قسط میں

Part 1

About admin

Check Also

Hazara Wars in Afghanistan p6

Hazara Wars in Afghanistan p6

Hazara Wars in Afghanistan p6 He writes that the Hazara people always sided with foreign …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

MENU

Stv History