Thomos Edison Urdu Part 1

Thomos Edison Urdu Part 1

ایک تین سالہ بچہ اپنی ماں کے ساتھ اپنے چھوٹے سے اینیمل فارم پر انڈے جمع کر رہا تھا۔اس نے دی کھا کہ ایک بطخ انڈوں پر بیٹھی ہے۔وہ دلچسپی اور حیرانی سے اسے دیکھ ے چلا جا رہا تھااس نے ماں سے پوچھا،’ماں یہ بطخ انڈوں پر کیوں بیٹھتی ہے؟‘
ماں نے کہا ’یہ انڈوں پر بیٹھ کر انھیں سینچتی ہے، جس کے بعد انڈوں سے چھوٹے چھوٹے بطخ کے بچے نکل آتے ہیں۔‘ننھے بچے یہ سنا تو اس کے چھوٹے سے دماغ میں کئی سوال پیداہو گئے۔ماں بچے کے ساتھ گھر واپس آئی تو کچھ دیر بعد بچہ غائب ہو گیا۔

سارا دن بیچاری ماں اپنے بچے کو تلاش کرتی رہی۔لیکن جب وہ ملا تو اسی فارم ہاؤس میں جہاں وہ صبح گیا تھا۔وہ بچہ کچھ انڈے جمع کر کے، بھوسے کے ڈھیر پر رکھ کر ان کے اوپر بیٹھا ہوا تھا۔وہ کیورئیس کڈ، وہ متجسس بچہ یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ اگر بطخ انڈوں پر بیٹھ کر بچے پیدا کر سکتی ہےتو وہ ایسا کیوں نہیں کر سکتا۔اب شاید یہ بتانے کی ہرگز ضرورت نہیں کہ انڈےٹوٹ چکے تھے۔

تین سالہ بچے کی حرکت تو بہت فنی تھی،مضحکہ خیز تھی،لیکن اس کا یہی تجسس اسے اپنے دور کا سب سے بڑا سائنس دان بنا گیا۔اس بچے کو آج دنیا تھامس ایلوا ایڈیسن کے نام سے جانتی ہے۔میں ہوں فیصل وڑائچ اور دیکھو سنو جانو کی وہ کون تھا سیریز میںہم آپ کو اسی دنیا بدل دینے والے عظیم سائنسدان کی بائیوگرافی کا پہلا حصہ دیکھا رہے ہیںاٹھارہ سو ساٹھ کی بات ہے۔ابراہم لنکن امریکہ کا صدر بننے کی تیاری کر رہا تھااور ملک میں خانہ جنگی کا ماحول تھا۔

اس دور میں امریکی ریاست مشی گن میں پورٹ ہیرون سے ڈیٹرائٹ تک ایک ٹرین چلتی تھیجس میں ایک بارہ سالہ بچہ تھامس ایڈیسن اخبار اور ٹوفیاں بیچتا تھا۔وہ غریب ماں باپ کا بچہ تھا، سنائی بھی اسے کچھ اونچا ہی دیتا تھابلکہ یوں کہیے کہ وہ تقریباً بہرہ تھا، ڈیف تھا۔اس کے استاد نے اسے تین ماہ بعد ہی سکول سے نکال دیا کہ اس کا سر بہت بڑا تھااور ان کا خیال تھا کہ وہ چیزیں یاد رکھنے صلاحیت سے محروم ہے۔

جس پر اس کی ماں جو کہ خود بھی ایک استاد تھی، نے اسے گھر پر ہی واجبی سی تعلیم دینا شروع کر دی۔قدرت نے اس کو بہت تھوڑا دیا تھا ہاں خواب اگرچہ اس کے بہت بڑے بڑے تھے۔وہ ایک کامیاب بزنس مین بننا چاہتا تھا،اس کی خواہش تھی کہ امریکہ کے ایک ایک گھر میں اس کا نام پہنچے۔اس بڑے خواب کے لیے اس کے پاس ایک ذہین دماغ تو تھالیکن سرمایہ بالکل نہیں تھا۔کیونکہ کوئی انویسٹمنٹ اس پر کرنے کو تیار نہیں تھا اور اس کے پاس انویسٹمنٹ تھی نہیں

بچپن سے ایڈیسن کا حال یہ تھا کہ اس کے ہاتھ جو چیز آتی وہ اسے خود دوبارہ بنا کر بیچنے کی کوشش کرتا تھا۔اخبار بیچتے بیچتے ایک دن اسے خیال آیا کہ کیوں نہ اپنا اخبار نکالا جائے۔وہ پرنٹنگ پریس سے اخبار لینے جاتا تھا اور اس مشین کو کام کرتے ہوئے دیکھتا تھا۔پرنٹنگ پریس کے کام کرنے کے طریقے کو سمجھنے میں اسے کوئی مشکل نہیں ہوئی کیونکہ وہ ایک سادہ سا پریس ہوا کرتا تھا۔اس نے اپنا چھوٹا سا پرنٹنگ پریس اسے دیکھتے ہوئےبنا لیااور اسے ایک ٹرین کی سامان والی بوگی ہی میں انسٹال کر دیا۔

اسی مشین پر وہ خود ہی اخبار چھاپنے اور ٹرین میں بیچنے لگا۔لوگ پہلی بار ایسا اخبار دیکھ رہے تھےجو اخبار بیچنے والےچھوٹے سے لڑکے نے خود ہی لکھا خود ہی چھاپا اور خود ہی بھیجنے کا بندوبست کیا تھا۔اس لئے کچھ لوگ اسی ناولٹی میں اسی شوق میں تجسس یہ اخبارخرید لیتے تھے۔مگر ظاہر ہے یہ اخبار نیوز کوالٹی میں بڑے اخبارات کا مقابلہ تو نہیں کر سکتا تھااس لئے اس کی فروخت نہ ہونے کے برابرتھی۔

About admin

Check Also

Why Kurds Don't Have Their Own Country in Urdu p2

Why Kurds Don’t Have Their Own Country in Urdu p2

Why Kurds Don’t Have Their Own Country in Urdu p2 کرد ترکی میں کل آبادی …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

MENU

Stv History