Thomos Edison Urdu Part 10
بجلی کے بزنس میں ناکامی کے بعد اب یہ دوسرا موقع تھا کہ ایڈیسن کا کاروبار تباہی کے دہانے پر کھڑا تھا۔ لیکن اس بار ایڈیسن ہوشیار تھا، اسے معلوم تھا کہ بزنس میں ضد نہیں سودے بازی چلتی ہے۔ چنانچہ اس نے بھی سودے بازی کر لی۔ اس نے فینٹو سکوپ کے مالک ٹامس آرمات سے فینٹوسکوپ کے رائٹس ہی خرید لیے۔ پھر اس نے فینٹو سکوپ کو بہتر بنا کر وائٹا سکوپ کے نام سے ایسی سینما مشین تیار کی جس نے باقی سب کمپیٹیٹرز کو مارکیٹ سے نکال باہر کیا۔ وائٹا سکوپ کے بعد اٹھارہ سو چھیانوے میں ایڈیسن نے پروجیکٹو سکوپ کے نام سے ایک اور سینما مشین بنا ڈالی۔
دوستوجن سینما مشینوں پر برسوں تک امریکی سینما انڈسٹری کی روزی روٹی چلتی رہی ہے، وہ ایڈیسن کی سینما مشینوں سےسیکھ کر ہی بنائی گئی تھیں۔ یوں ہی ہالی وڈ فلم انڈسٹری نے جنم لیا، موشن پکچرز اور گونگی فلموں سیلنٹ موویز کا ٹاک کیز سے پہلے کی فلموں کا دور شروع ہوا۔ ٹکنالوجی میں یہ انقلاب ایڈیسن کے ایجاد کرتا ویڈیو کمیرے اور پروجیکٹرسے ہی ممکن ہو پاتا تھا یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ اگر ایڈیسن نہ ہوتا تو ہالی وڈ اورسینما گھروں کی رونق شاید کسی اور طرح سے وجود میں آتی
اور ہاں ایڈیسن کے بلیک ماریا سٹوڈیوز نے بھی ویڈیوز بنانے کا سلسلہ جاری رکھا اور بیس برس میں بارہ سو فلمیں تیار ہوئیں۔ ایڈیسن چونکہ آواز اور ویڈیو دونوں کی ریکارڈنگ ڈیوائسز بنانے میں کامیاب ہو چکا تھا۔ اس لئے اس نے ایک ایسی ڈیوائس بنانے کی بھی اب کوشش شروع کر دی جس میں ویڈیو کےساتھ آواز کو بھی سنا جا سکے یعنی گونگی فلموں کو بولتی فلموں میں بدلنے کی ٹکنالوجی اس میں اسے کچھ کامیابی بھی ملی لیکن وہ اسے زیادہ بہتر اور کمرشل استعمال کے قابل نہ بنا سکا۔
انیس سو پندرہ میں یہ پراجیکٹ ختم کر دیا گیا۔ تاہم کچھ عرصے بعد انیس سو بیس کی دہائی میں کچھ دوسرے سائنسدانوں نے گونگی فلموں کی جگہ بولتی فلمیں بنانے کی بہتر اور قابل استعمال ٹکنالوجی بنا لی اور مارکیٹ میں لے آئے۔ لیکن مائے کیوریس فیلوز سینما مشین اور ویڈیو کیمرہ ہی ایڈیسن کی آخری منزل نہیں تھے۔ وہ تو سکائی از دا لِمٹ کے مطابق چلتا تھا۔ موشن پکچرز یعنی ویڈیوز میکنگ میں کامیابی کے بعد ایڈیسن نے بزنس کے کئی اور شعبوں میں بھی قدم رکھ دیا۔
اس کی قائم کی ہوئی کمپنیاں پنکھے، موٹرز، گرامو فون، بجلی کا سامان حتیٰ کہ میڈیکل کے آلات اور پلاسٹک کی پیکنگ تک بناتی تھیں۔ ایڈیسن کی ہر پروڈکٹ پر اس کا نام لکھا ہوتا تھا، ہر کمپنی کے ہر اشتہار میں یہ دعویٰ کیا جاتا کہ ایڈیسن پروڈکٹس سے بہتر کوئی چیز نہیں۔ یوں ایڈیسن کا نام کوالٹی کی ضمانت بن گیا، وہ امریکہ میں ایک برانڈ بن گیا، بارہ سال کی عمر سے دولت مند اور بزنس برانڈ بننے کا جو خواب اس نے دیکھا تھا وہ پورا ہو گیا تھا۔
اب وہ بوڑھا ہو رہا تھا، بظاہر اسے سب کچھ مل گیا تھا۔ لیکن جس عمر میں لوگ اپنی خون پسینے کی کمائی میں ایک پیسے کا ضیاع ایک پینی کا ضائع ہو جانا برداشت نہیں کرتے وہاں ایڈیسن نے پانچ ملین ڈالر اپنی آنکھوں کے سامنے جلتے دیکھےلیکن ٹس سے مس نہیں ہوا۔ ہوا یہ کہ دسمبر انیس سو چودہ میں ایڈیسن کے ویسٹ آرنج نیوجرسی والے پلانٹ میں آگ لگ گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے تیرہ عمارتیں جل کر راکھ ہو گئیں۔ ایڈیسن بھی وہاں موجود تھا اور اپنی عمر بھر کی کمائی اپنی آنکھوں کے سامنے جلتے دیکھ رہا تھا۔
لیکن اسے نہ دل کا دورہ پڑا نہ کوئی پریشانی ہوئیاس نے اپنے بیٹے چارلز سے کہا بیٹا جاؤ اپنی ماں اور اس کی سب دوستوں کو لے کر آؤ آگ کا ایسا نظارہ انہیں پھر دیکھنے کو نہیں ملے گا۔ چارلز نے اپنے باپ کی بات سن کر شاید سوچا ہو کہ بڈھا سٹھیا گیا ہے، بہکی بہکی باتیں کر رہا ہے۔ مگر یہ بڈھا سٹھیایا نہیں تھا۔ وہ تو کاغذ قلم لے کر ان چیزوں کی فہرست بنا رہا تھا جو اسے اپنے پلانٹ کو دوبارہ تعمیر کرنے کیلئے چاہیے تھیں۔ اس کی اس کارروائی کو دیکھ کر وہاں موجود ایک رپورٹر کو تجسس ہوا۔
اس نے سوچا ذرا دیکھیں تو سہی یہ شخص اپنا نقصان دیکھ کر اب کیا لکھ رہا ہے؟ اس نے ایڈیسن سے اس بارے میں پوچھا تو ایڈیسن کے جواب نے اسے حیران کر دیا۔ ایڈیسن نے کہا میں سڑسٹھ برس کا ہوں مگر میں کل سے ایک نئی شروعات کروں گا۔ یہ بات سن کر چارلز کی طرح شاید رپورٹر کو بھی ایڈیسن کی دماغی صحت پر کچھ شک ہوا ہو۔ لیکن ایڈیسن مذاق بلکل نہیں کر رہا تھا۔ جب فائر بریگیڈ نے آگ پر قابو پا لیا تو پلانٹ میں ہونے والے نقصان کا اندازہ لگایا گیا تو یہ تیس سے پچاس لاکھ ڈالرز تھا۔ تھری ٹو فائیو ملین ڈالرز مگر ایڈیسن نے نقصان کی یہ خبر بھی ہنسی مذاق میں اڑا دی۔