Thomos Edison Urdu Part 11
اس کے پاس اب بھی اتنی دولت تھی کہ وہ یہ پلانٹ دوبارہ کھڑا کر سکتا تھا۔ اگرچہ ایک بڑے نقصان کے بعد دوبارہ انویسٹمنٹ کرنا دل گردے کا کام تھا مگر ایڈیسن جانتا تھا کہ اس کا نام ایک برانڈ ہے۔ جیسے ہی اس کا پلانٹ دوبارہ کام شروع کرے گا اس کا منافع واپس آ جائے گا اور نقصان پورا ہو جائے گا۔ چنانچہ اس نے پلانٹ کو دوبارہ بنایا اور کچھ ہی عرصے میں اپنا نقصان پورا کر لیا۔ ایڈیسن بڑھاپے میں بھی جوانوں کی طرح کام کرتا تھا، اسے اپنے پلانٹس پر جانا اور ہر معاملے میں اپنے ورکرز کو گائیڈ کرتے رہنا اچھا لگتا تھا۔
مگر بڑھاپا کبھی نہ جانے کے لیے آتا ہے، کئی بیماریوں کو ساتھ لاتا ہے۔ سو ایڈیسن کا ہاضمہ اب خراب رہنے لگا تھا۔ گردے بھی جواب دے رہے تھے۔ پرہیزی کھانا کھاتے کھاتے ایک وقت ایسا آیا کہ اس نے کھانا ہی چھوڑ دیا، اب وہ صرف دودھ پیتا تھا، یا شغل کے لیے سگار کے کش لگا لیا کرتا تھا بیماریوں نے جب اسے زیادہ جسمانی محنت کے قابل نہ چھوڑا تو انیس سو چھبیس میں وہ اپنا کاروبار اپنے بیٹے چارلز کو سونپ کر ریٹائر ہو گیا۔ اب وہ زیادہ تر اپنے دوست ہنری فورڈ کے ساتھ دکھائی دیتا تھا۔
ہنری فورڈ پہلے ایڈیسن کی ہی ایک کمپنی میں انجینئر تھا اور اسی دوران اس کی ایڈیسن سے دوستی بھی ہو گئی تھی۔ اس کے بعد ہنری نے فورڈ کمپنی کے نام سے کاریں بنانے کا بزنس شروع کر دیا۔ کہتے ہیں ایڈیسن نے بجلی سے چلنے والی کاریں یعنی الیکٹرک کارز بھی بنائی تھیں اور ہنری فورڈ بھی الیکٹرک کاریں بنانے کیلئے ایڈیسن سے ایک لاکھ بیٹریاں خریدنے والا تھا مگر کسی وجہ سے یہ ڈیل فائنل نہ ہو سکی۔ اس ناکام ڈیل کے بعد بھی دونوں کی دوستی میں فرق نہیں آیا۔
ان دونوں نے اپنے کچھ اور دوستوں سے مل کر ایک گروپ بنا لیا تھا جسے وہ ویگابانڈز یعنی آوارہ گرد کہتے تھے۔ یہ لوگ اکٹھے سیرسپاٹے اور پارٹیاں کرتے۔ ایڈیسن امریکیوں میں ایک طرح کی سلیبیرٹی، لیونگ لیجنڈ بن چکا تھا۔ اسے اپنے دور کا سب سے بڑا موجد یا انوینٹر مانا جاتا تھا اور اس کا شمار امریکہ کےسب سے بڑے کاروباری افراد میں ہوتا تھا۔ جدید امریکہ اسی کی بنائی ہوئی ٹیکنالوجی پر چل رہا تھا اس لئے لوگ اس کے دیوانے تھے۔
شاید ہی دنیا میں کسی سائنسدان کو اپنی زندگی میں اتنی عزت اور اتنی شہرت اور اتنا پیسہ ملا ہوجتنا ایڈیسن کو ملا۔ عالی شان تقریبات اس کے اعزاز میں منقید کی جاتیں۔ لوگ اس سے فرمائش کر کے میری ہیڈ اے لٹل لیمب سنتے یہ وہی نظ تھی جو اس نے اپنی پہلی ایجاد فونوگراف پر ریکارڈ کرائی تھی۔ پریس اس کی ہر بات اور اس سے جڑے ہر واقعے کو شہہ سرخیوں میں شائع کرتا تھا۔ مگر وقت کے ساتھ ایڈیسن کی بیماریاں بڑھتی جا رہی تھیں۔
انیس سو اکتیس میں جب ایڈیسن ویسٹ آرنج نیوجرسی میں رہ رہا تھا تو وہاں اس کی طبیعت بہت بگڑ گئی اور وہ بستر سے لگ گیا۔ رپورٹرز نے ویسٹ آرنج کاؤنٹی میں اس کے گھر کے باہر ڈیرے لگا لئے، ایڈیسن دھیرے دھیرے موت کی جانب بڑھ رہا تھا اور اس کی حالت میں معمولی سی تبدیلی کی خبریں بھی امریکی اخبارات میں ہیڈ لائنز بنتی تھیں۔ آخر اٹھارہ اکتوبر انیس سو اکتیس کو چوراسی برس کی عمر میں ایڈیسن کی موت ہو گئی۔
اس کا تابوت دو روز تک اس کی لیبارٹری میں رکھا رہا جہاں پچاس ہزار سے زائد لوگوں نے اس کو آخری باردیکھا۔ تیسری رات امریکی صدر ہربرٹ ہوور نے ریڈیو پر لوگوں سے درخواست کی کہ وہ ایڈیسن کی یاد میں اپنے گھروں کی بجلی ایک منٹ کیلئے بند کر دیں۔ چنانچہ پورے امریکہ میں ایک ہی وقت میں لائٹس بند ہو گئیں۔ یہ اس بات کا اظہار تھا کہ اگر ایڈیسن نہ ہوتا تو امریکہ کیسا دکھائی دیتا۔ ایڈیسن کو نیوجرسی میں ہی اپنے گھر کے پاس دفن کر دیا گیا۔
ایڈیسن کے نام پر ایک ہزار ترانوے ایجادات رجسٹرڈ ہیں۔ امریکہ میں اس کی یادگاریں اور مجسمے بنائے گئے، اس کے نام پر ایوارڈز دیئے گئے بہت سےانسٹیٹیوٹس اس کے نام پر بنے اس سے وابستہ عمارتوں کو محفوظ کر کے ہسٹورک سائٹس یا تاریخی مقامات کا درجہ دیا گیا۔ دوستو کیا آپ کے ذہن میں کبھی کوئی ایسا خیال آیا جو کسی پہلے سے موجود ٹکنالوجی کو بالکل نئی شکل دے دے؟ یقیناً آیا ہو گا، ہمیں کامنٹس میں ضروربتائیں