Thomos Edison Urdu Part 2
ھر یوں ہوا کہ ایک دن اس بوگی میں جہاں یہ پرنٹنگ پریس انسٹال تھا آگ لگ گئی اور ایڈیسن کا پریس جل کر راکھ ہو گیا۔ وہ چاہتا تو پرنٹنگ پریس دوبارہ بنا لیتا طریقہ تو وہ سیکھ چکا تھا مگر تب تک وہ یہ بھی سمجھ چکا تھا کہ اخبار کے بزنس میں زیادہ فائدہ نہیں ہے۔ تو اب کیا کیا جائے؟ اسے کوئی سونے کی کان تو ملنے سے رہی۔ اس نے ٹرین کی کھڑکی سے سر باہر نکالا اور ٹریک کے ساتھ دوڑتے بھاگتے ٹیلیگراف کے کھمبوں کو دیکھنے اور کچھ سوچنےلگا۔
وہ جانتا تھا کہ ان کھمبوں پر لگی تاروں میں ہزاروں پیغامات کے سگنلز دوڑ رہے ہیں۔ اخبار بیچنے کے دوران اس نے ٹیلیگراف کے آفسز دیکھے تھے اور مشینوں کی ٹک ٹک آوازیں سنی تھیں۔ اس نے ٹیلیگراف آپریٹرز کو کوڈز والا پیغام لے کر اسے الفاظ میں ڈھالتے ڈی کوڈ کرتے دیکھا تھا۔ اس نے سوچا کہ اگر وہ پرنٹنگ پریس بنا سکتا ہے تو ٹیلیگراف مشین کیوں نہیں بنا سکتا۔ بلکل اسی طرح جس طرح اس نے سوچا تھا کہ بطخ انڈوں سے بچے نکال سکتی ہے تو وہ کیوں نہیں نکال سکتا۔
لیکن اب ظاہر ہے وہ میچور ہو چکا تھا اگر ایسا ہو سکتا کہ وہ ٹیلی گراف مشین بنا سکتا تو واقعی یہ اس کے لیے سونے کی کان کا دروازہ ہی تھا مگر ٹیلیگراف مشین، پرنٹنگ مشین سے زیادہ پیچیدہ تھی۔ اسے سمجھنے کیلئے اس کے قریب رہنا پرنٹنگ پریس میشن سے کئی زیادہ ضروری تھا۔ چنانچہ ایڈیسن نے ٹیلیگراف آپریٹر بننے کا فیصلہ کر لیا۔ مگر یہاں مسئلہ یہ تھا کہ اسے ٹیلیگراف کے مشکل مشکل کوڈز سکھاتا کون؟
تو دوستو نجانے ہر بار ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جب آپ کچھ کرنے کی ٹھان لیتے ہیں تو نیچر، قدرت آپ کی پوری پوری مدد کرتی ہے ایسا ہی ایڈیسن کے ساتھ ہوا۔ اٹھارہ سو باسٹھ میں ایڈیسن پندرہ برس کا تھا۔ اس نے ایک تین سالہ بچے کو ٹرین کی زد میں آ کر مرنے سے بچایا۔ بچے کے باپ نے ایڈیسن کو اس کے اس احسان کا بدلہ دینا چاہا لیکن ایڈیسن نے انکار کر دیا۔ اور کہا کہ اگر وہ واقعی ہی اس کی مدد کرنا چاہتے ہیں تو کسی طرح اسے ٹیلیگرافی سکھا دیں
یا کسی ایسے شخص کا بتا دیں جو اسے یہ سیکھا سکے۔ اب اتفاق دیکھیں کہ وہ شخص اس بچے کا باپ خود ٹیلیگرافی جانتا تھا۔ اس نے اپنے بیٹے کی جان بچانے کے خوشی میں ایڈیسن کو ٹیلیگرافی کے کوڈز سکھا دیئے۔ اب ایڈیسن نے اخبار بیچنا چھوڑے اور ٹیلیگراف آپریٹر بن گیا۔ اس وقت امریکہ میں خانہ جنگی زوروں پر تھی امریکہ دو حصوں میں بٹا تھا خون خرابہ ہو رہا تھا ہر طرف سے خبروں کی بھرمار تھی، ٹیلیگراف مشینوں پر بار بار جنگ کی تازہ ترین صورتحال کے پیغامات آتے رہتے تھے۔
اس لئے کام کے دوران ایڈیسن ہر وقت مصروف رہتا مگر یہ جاب اس کی منزل نہیں تھی۔ یہاں تو وہ صرف یہ دیکھنے آیا تھا کہ ٹیلیگراف مشینوں میں آخر کون سی راکٹ سائنس ہے جو وہ نہیں سمجھ سکتا۔ اس کے ساتھی آپریٹرز تو بس جیسے تیسے کام کا وقت پورا کرتے اور گھروں کوچلے جاتے، مگر ایڈیسن ٹیلیگراف مشین کو سمجھنے میں لگا رہتا کام کے دوران۔ سگنلز بھیجنے اور وصول کرنے میں جو بھی مشکلات ہوتی تھیں اس نے سب نوٹ کررکھی تھیں۔
جب اٹھارہ سو پینسٹھ میں امریکہ میں خانہ جنگی ختم ہو گئی اور کام کا بوجھ کچھ کم ہوا تو ایڈیسن پھر سے اپنے آئیڈئیے یعنی ٹیلیگراف مشین بنانے پرجت گیا اپنی ملازمت کے دوران وہ اس مشین کے بارے میں بہت کچھ سیکھ چکا تھا، اب اس نے ڈے شفٹ چھوڑ کر نائٹ شفٹ میں کام شروع کر دیا۔