Thomos Edison Urdu Part 4
وہ امریکہ کا سب سے بڑا برانڈ بننا چاہتا تھا۔ اٹھارہ سو چھہتر میں ایڈیسن نے نیوجرسی کے علاقے مین لو پارک میں اپنی لیبارٹری اور ورکشاپ قائم کی۔ یہ ورکشاپ چونتیس ایکڑ پر پھیلی ہوئی تھی۔ یہاں کام کرنے کیلئے اس نے امریکہ کے بہترین سائنسدان اور انجینئر ملازم رکھے اور ایک زبردست انٹیلیجنٹ ٹیم تیار کی۔ یہاں وہ ایسی ایجادات کرنا چاہتا تھا جنہیں وہ عام لوگوں کے لیے فوری طور پر تیار کر کے مارکیٹ میں لا سکے۔ یوں وہ کم وقت میں کم محنت سے زیادہ منافع کما سکتا تھا۔
ایسی ایجادات کیلئے اسے زیادہ غوروفکر کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ سائنسدان بجلی سے لے کر آواز اور تصویر ریکارڈ کرنے والی مشینیں تک بنانے کی کوششوں میں تھے۔ لیکن یہ سب کچھ لیبارٹریوں کے بند ماحول میں ہو رہا تھا۔ ایک تحقیقی کام کی صورت میں یہ سب کچھ ہو رہا تھا۔ ابھی بہت سی ٹیکنالوجیز کمرشل نہیں ہوئی تھیں۔ اس کے برعکس ایڈیسن کی خوبی یہ تھی کہ اسے ٹیکنالوجی کو کمرشل کرنے کا فن آ گیا تھا۔
تو ایڈیسن نے یہ کیا کہ سب سے پہلےموجود ٹکنالوجیز کو ہی استعمال کرتے ہوئے ایسی چیزیں بنا ڈالیں جنہیں عام لوگ بھی استعمال کر سکتے تھے۔ اپنی انہی زبردست ایجادات کی وجہ سے وہ مین لو پارک کا جادوگر کہلایا۔ ان ایجادات میں پہلی ایجاد تھی فونوگراف۔ یہ ریکارڈنگ کی اتنی سادہ سی ڈیوائس تھی کہ اس پر ریکارڈ کی گئی آواز صرف ایک پن کی مدد سےسنی جا سکتی تھی اور وہ بھی صاف صاف۔
فونوگراف پر پہلی آواز بھی اس کے موجد تھامس ایڈیسن ہی کی تھی جس میں اس نے بچوں کی مشہور نظم میری ہیڈ اے لٹل لیمب گائی۔ یہ سیلنڈر جیسی سادہ سی مشین دراصل ایڈیسن کا فونوگراف ہے جو آواز ریکارڈ کرنے کی پہلی کمرشل ڈیوائس تھی۔ اس ایجاد نے امریکہ میں تہلکہ مچا دیا تھا۔ امریکی صدر اور کانگریس نے ایڈیسن کو بلا کر اس ڈیوائس کا کمال اپنے سامنے دیکھا۔ بعد میں یہی ڈیوائس گرامو فون کے نام سے امریکہ میں گھر گھر پہنچ گئی۔
فونو گراف اور گرامو فون میں دوستو فرق تھا۔ یہ الگ الگ ڈیوائسز تھیں۔ اور گرامو فون تو ایڈیسن کی ایجاد بھی نہیں تھی بلکہ بعد میں ایجاد ہوئی۔ لیکن گرامو فون کا نام اتنا مشہور ہوا کہ اس دور میں کئی ریکارڈنگ ڈیوائسز گرامو فون ہی کہلانے لگیں۔ مگر فونوگراف یا گرامو فون تو ابھی شروعات تھی۔ جادوگر سائنٹسٹ کی پٹاری سے ایک اور آئیڈیا نکلا جس نے ایک بار پھر سب کو حیران کر دیا۔
یہ آئیڈیا تھا ہر امریکی گھر کو بجلی سے روشن کرنے کا۔ امریکہ اور یورپ کی راتیں تو اٹھارہ سو پچاس سے پہلے ہی روشن ہونا شروع ہو گئی تھیں۔ بجلی کے ٹاورز بھی لگ چکے تھے اور گلیوں میں رات کو بڑی بڑی آرک لائٹس روشن ہو جاتی تھیں۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ یہ آرک لائٹس اتنی زیادہ روشنی دیتی تھیں اور اتنی گرمی پیدا کرتی تھیں کہ انھیں گھروں میں استعمال نہیں کیا جا سکتا تھا۔ صرف پارکس یا چوراہوں پر ہی اونچا کر کے لٹکایا جا سکتا تھا۔
گھروں میں لوگ اب تک گیس یا تیل سے روشنی کا انتظام کرتے تھے۔ تو اٹھارہ سو آٹھتر میں ایڈیسن نے رپورٹرز کے سامنے یہ ڈینگ مار دی کہ وہ جلد ہی امریکی گھرانوں کو بجلی سے روشن کر دے گا۔ اب اتنا بڑا سائنسدان جب یہ دعویٰ کر دے تو امریکیوں کا انتظار کرنا تو بنتا تھا سو وہ یہ انتظارکرنے لگے ایڈیسن کا خیال تھا کہ اگر ایک عام لیمپ کو تیل یا گیس کی جگہ بجلی سے روشن کیا جائے
تو اس کی روشنی بڑھ جائے گی اور آرک لائٹ کی طرح آنکھوں میں چبھے گی بھی نہیں۔ اس نے اندازہ لگایا کہ اگر لیمپ میں سے ہوا نکال دی جائے یعنی ویکیوم پیدا کر دیا جائے اور پھر اس لیمپ میں کچھ باریک سی تاریں داخل کر کے ان میں سے کرنٹ گزارا جائے تو لیمپ روشن ہو جائے گا۔