Thomos Edison Urdu Part 5

Thomos Edison Urdu Part 5

ان باریک سی تاروں کو فلامنٹ کا نام دیا گیا۔ لیکن ایڈیسن خود کہا کرتا تھا کہ آئیڈیا کسی بھی پراجیکٹ کا صرف ایک فیصد ہوتا ہے اور باقی ننانوے فیصدانتھک محنت سے ہی پورا ہو پاتا ہے تو اسی ننانوے فیصد پر اس نے کام شروع کر دیا۔
پہلا مرحلہ یعنی لیمپ، بلب میں ویکیوم پیدا کرنا تو کوئی خاص مشکل نہیں تھا اس کی لیباٹری میں یہ کام ہو سکتا تھا اصل مشکل تھی اس میں لگنے والی تاروں یعنی فلامنٹ کی تیاری۔

سوال یہ تھا کہ یہ فلامنٹ کون سے میٹریل کا بنے گا وہ میٹریل جس میں سےکرنٹ بھی گزر سکے اور وہ میٹریل کرنٹ کو برداشت بھی کر سکے؟ کیونکہ ایسے کسی میٹیریل کا سائنسدانوں کو اس وقت تک علم نہیں تھا۔ ایڈیسن نے سب سےپہلے کاغذ کا فلامنٹ بنایا۔ لیکن جب اس میں سے کرنٹ گزارا گیا تو اس کے پرزے پرزے ہو گئے۔ اس کے بعد تو جیسے ایلیمنٹس کی ایک قطار لگ گئی۔

ایڈیسن اور اس کی ٹیم کے سامنے جو بھی چیز آتی جو بھی میٹیل آتا وہ اس سے کرنٹ پاس کر کے دیکھےکہ کیا بلب جلا ہے؟ اس جنونی طریقے میں انھوں نے گھوڑوں کے بال، کوکونٹ کے ریشے، مکڑیوں کے جالے حتیٰ کہ کچھ ملازموں کی داڑھیوں کے بال تک ٹیسٹ کر کے چھوڑے۔ لیکن کرنٹ کے آگے کوئی بھی ایلیمنٹ نہیں ٹھہر رہا تھا۔ ایک بار پلاٹینم کے فلامنٹ کا تجربہ کامیاب رہا تھا مگر پلاٹینم بہت ہی مہنگی دھات تھی۔ اسے کمرشلی استعمال کرنا ناممکن تھا۔

اگر اسے استعمال کیا جاتا تو ظاہر ہے بلب اتنا مہنگا ہو جاتا کہ عام امریکی اور دنیا میں عام لوگ ایسے خرید نہ پاتے ایڈیسن ایک سستا بلب بنانا چاہتا تھا جو ہر گھر میں پہنچ سکے۔ چنانچہ اس نے پلاٹینم کا فلامنٹ مسترد کر دیا اور اپنی ٹیم کو تجربات جاری رکھنے کی ہدایت کی۔ تقریباً ایک سال کی مغز ماری اور چھے ہزار میٹریل ٹیسٹ کرنے کے بعد ایڈیسن کی ٹیم ایک سستا اور معیاری فلامنٹ بنانے میں کامیاب ہوئی۔ اور یہ تھا کاربن کا فلامنٹ۔

اگرچہ تاریخ میں یہ کنٹروورسی یا تنازعہ آج تک موجود ہے کہ کاربن فلامنٹ کی ایجاد کا سہرا کس کے سر باندھا جائے؟ یڈیسن کے سر یا پھر اس کے ایک ملازم سیاہ فام ملازم ایڈورڈ لیوس لیٹی میر کے سر؟ ویسٹ انڈیز کے مشہور کرکٹر مائیکل ہولڈنگ سمیت بہت سے لوگوں کا یہ خیال ہے کہ فلامنٹ کا موجد ایڈیسن نہیں لیٹی میر تھا۔ سیاہ فام ملازم کو اس ایجاد کا سہرا دینے والے لوگوں کا خیال ہے کہ سفید فام نسل پرستوں نے ایڈیسن کو فلامنٹ بنانے کا کریڈٹ دے کر سیاہ فاموں سے ناانصافی کی ہے،

تاریخ کو مسخ کیا ہے۔ اب کاربن فلامنٹ بھلے لیٹی میر نے ہی بنایا ہو لیکن اس کا کمرشل فائدہ بہرحال ایڈیسن نے ہی اٹھایا۔ اس نے بجلی سے جلنے والا بلب تیار کر لیا تھا۔ اب وقت تھا اس کی آزمائش کا۔ اٹھارہ سو اناسی، 1879 میں اس نے کاربن کے فلامنٹ سے بلب کو جلایا اور اسے تیرہ گھنٹے تک روشن رکھنے میں کامیاب رہا۔ یہ ایک ایسی ایجاد تھی جس نےدنیا میں بہت بڑی تبدلیلے کر آنی تھی۔ سو ایڈیسن نے نئے سال کے موقع پر اپنی اسی ایجاد کی نمائش کا اعلان کیا۔

اعلان ہوتے ہی دور پار سے لوگوں نے نمائش میں پہنچنے کی سرتوڑ کوششیں شروع کر دیں.اکتیس دسمبر اٹھارہ سو اناسی کی رات ایڈیسن کی لیبارٹری کے باہر ایک اچھا خاصا ہجوم جمع تھا۔ وہ لیبارٹری کے باہر گیس لیمپس کی جگہ بجلی کے روشن بلب دیکھ کر پرجوش ہو رہے تھے۔ لیکن ظاہر ہے اصل نمائش لیبارٹری کے اندر تھی۔

About admin

Check Also

Why Kurds Don't Have Their Own Country in Urdu p2

Why Kurds Don’t Have Their Own Country in Urdu p2

Why Kurds Don’t Have Their Own Country in Urdu p2 کرد ترکی میں کل آبادی …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

MENU

Stv History