Thomos Edison Urdu Part 8
ایڈیسن اور ٹیسلا کے اس ٹکراؤ کو تاریخ میں وار آف دا کرنٹس کے نام سے یاد کیا جاتا۔ وار آف دا کرنٹس میں ایڈیسن نے ہر ڈرٹی ٹرِک کھیلا، ہر برا کھیل کھیلا اس کے کہنے پر جانوروں کو اے سی کرنٹ لگا کر مارا گیا حتیٰ کہ ایڈیسن نے ایک انسانوں کوسزائے موت دینے کیلئے بھی اے سی کرنٹ استعمال کرنے کا مشورہ دیا۔ وہ یہ سب کچھ اس لیا کر رہا تھا کہ اے سی کرنٹ اس کے مد مقابل اس کے خریف ٹیسلا کی ایجاد تھی اور وہ اے سی کرنٹ ٹیسلا کا مقابلہ کرنے کی بجائے اے سی کرنٹ کواوچھے ہتھکنڈوں سے بدنام کرنے پر تل گیا تھا
اے سی کرنٹ کے خلاف اس نے ہزاروں پمفلٹ چھپوا کر بھی لوگوں میں بانٹے یہ سب کچھ اس لیا کیا گیا تاکہ اے سی کرنٹ کو خطرناک ثابت کر کے مارکیٹ میں ٹیسلا کا اور اس کرنٹ کا نام بدنام کیا جائے لوگ اس کرنٹ سے ڈرنے لگیں اور یہ ٹیکنالوجی فلاپ ہو جائے۔ لیکن کوئی ٹیکنالوجی بھلا صرف پراپیگنڈے کے زور پر مارکیٹ سے آؤٹ ہو سکتی ہے بھلا؟ نئی اور سستی ٹکنالوجی جو بہتر بھی ہو اسے ہرانا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوتا ہے۔ ایڈیسن تو ضد پر اڑا ہوا تھا لیکن اس کا بزنس پارٹنر جے پی مورگن بات سمجھ گیا تھا۔
وہ جان گیا کہ ایڈیسن کی ضد اس کی ساری انویسٹمنٹ ڈبو سکتی ہے۔ چنانچہ اس نے بجلی کی مارکیٹ میں اِن رہنے کیلئے وہی کیا جو ایڈیسن نے ٹیسلا کے ساتھ کیا تھا۔ یعنی جے پی مورگن نے ایڈیسن کے ساتھ اپنے پرانے تعلق کا لحاظ کئے بغیر خود غرضی دیکھائی جنرل الیکٹرک کے نام سے اپنی الگ پاور کمپنی بنا لی۔ چونکہ ایڈیسن کی پاور کمپنی بھی مورگن کی انویسٹمنٹ پر ہی چل رہی تھی اس لئے اس نے یہ کمپنی بھی جنرل الیکٹرک میں ضم کر لی۔ اگرچہ نئی کمپنی میں ایڈیسن کے شیئرز تو موجود رہے مگر فیصلوں کا اختیار جے پی مورگن کے پاس چلا گیا۔
اس ساری صورت حال میں ایڈیسن کی آخری امید یہ تھی کہ شکاگو میں ہونے والی ورلڈ کولمبیئن ایگزیبیشن میں الیکٹرک سپلائی کا ٹھیکہ اسے ملے۔ یہ نمائش کولمبس کے امریکہ دریافت کرنے کے چار سو برس پورے ہونے پر منعقد کی جا رہی تھی۔ اٹھارہ سو ترانوے میں ہونے والی اس نمائش کو بجلی سے روشن کرنے کا ٹھیکہ اگرجنرل الیکٹرک کو مل جاتا تو ایڈیسن کیلئے کچھ فیس سیونگ ہو سکتی تھی۔ کیونکہ جنرل الیکٹرک ابھی تک ایڈیسن کا بنایا ڈی سی کرنٹ استعمال کر رہی تھی۔ لیکن ظاہر ہے یہ کرنٹ تو اے سی کے مقابلے میں بہت مہنگا تھا۔
چنانچہ جب پاور سپلائی کیلئے بولی لگانے کا وقت آیا تو جنرل الیکٹرک نے دس لاکھ ڈالر کی بولی لگائی جبکہ ویسٹنگ ہاؤس الیکٹرک نے اس سے آدھی صرف پانچ لاکھ ڈالر کی بولی لگائی۔ یہ ایڈیسن کے ڈی سی کرنٹ کی آخری شکست تھی، بلکہ موت تھی اس کے بعد ایڈیسن بجلی کے بزنس سے آؤٹ ہو گیا اور جنرل الیکٹرک نے بھی دھیرے دھیرے اپنے پلانٹس کو اے سی کرنٹ پر منتقل کر نا شروع کر دیا۔ یہ سب کچھ ایڈیسن کی ضد کا نتیجہ تھا، اس کی ہٹ دھرمی کے باعث ہوا تھا
اگر وہ اپنے رویے میں لچک دکھاتا اور پہلے ہی ڈی سی کی جگہ اے سی کرنٹ استعمال کرنا خود بھی شروع کر دیتا تو بجلی کے بزنس سےشاید آؤٹ نہ ہوتا۔ مگر اس کی انا نےاسے ہرا دیا تھا۔ بزنس کی بے رحم مقابلے بازی میں پہلی بار ایڈیسن کو شکست کا زہر چکھنا پڑا تھا اور وہ بھی اپنے اس ملازم کے ہاتھوں جیسے اس نے محض چند ڈالرز کے بدلے نوکری چھوڑنے پر مجبور کیا تھا اس ناکامی کے بعد اس کے مخالفین سمجھ رہے تھے کہ اب ایڈیسن کی بتی گل ہو گئی اور وہ کوئینیا بڑا پراجیکٹ شروع نہیں کر سکتا۔