Thomos Edison Urdu Part 9

Thomos Edison Urdu Part 9

لیکن مین لو پارک کے جادوگر کی پٹاری میں ابھی بہت سے آئیڈیاز باقی تھے۔ اس نے پٹاری میں ہاتھ ڈالا اور ویڈیو کیمرہ نکال لیا۔ دیکھنے والوں کی آنکھیں پھر کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ ایڈیسن نے ایک بار پھر پرانی ٹیکنالوجی کو بہتر کر کے بیچ دیا۔ ویڈیو کیمرے کی ٹیکنالوجی پرانی ہی تھی۔ برطانوی سائنسدان موئے برج سمیت کئی لوگ اٹھارہ سو اسی سے اس پر کام کر رہے تھے۔ کیمروں سے بنائی گئی تصاویر کو دائرے کی شکل میں جوڑ کر جب گھمایا جاتا تو یہ تصویریں حرکت کرتی نظر آتی تھیں۔ اس لئے انہیں موشن پکچرز یعنی حرکت کرنے والی تصویریں بھی کہا جاتا تھا۔

مگر ان تصویروں کو جمع کرنے کیلئے بعض اوقات کئی کئی کیمرے لگانا پڑتے تھے۔ یا پھر تصویروں کو نکال کر الگ الگ جوڑنا پڑتا تھا۔ اب ایڈیسن نے ایسا کیمرہ بنا لیا تھا جو بجلی سے چلتا تھا اور ایک ہی کیمرے میں سیلولائڈ کی ایک پٹی پر تصویریں بنتی جاتی تھیں۔ اس کیمرے کو کائنیٹو گراف کا نام دیا گیا۔ اس کیمرے سے لی گئی تصویریوں کو ویڈیو کی شکل میں چلانے کیلئے ایک ڈیوائس کائینیٹو سکوپ ایجاد کی گئی۔ اس ڈیوائس میں تصویروں والی سیلولائڈ کی پٹی کو رکھ دیا جاتا۔ پھر یہ ڈیوائس ان تصویروں کو ویڈیو کی شکل میں پلے کر دیتی تھی۔

ویڈیو دیکھنے کیلئے آنکھ کو اس پر لگے لینز کے قریب لے جانا پڑتا تھا۔ ایڈیسن نے اپنی مین لو پارک والی لیبارٹری سے اکیس میل دور ویسٹ آرنج نیوجرسی میں بلیک ماریا کے نام سے ایک سٹوڈیو بھی بنالیا۔ یہاں اٹھارہ سو چورانوے میں بڑے پیمانے پر ویڈیوز کی ریکارڈنگ کی گئی۔ ایڈیسن ویڈیوز یا موشن پکچرز کو لوگوں کیلئے ایک لگژری، ایک انٹرٹینمنٹ بنانا چاہتا تھا۔ چنانچہ اس نے پورے امریکہ میں کائنیٹو سکوپ کے سٹوڈیوز کا جال بچھا دیا۔ ان سٹوڈیوز میں ایک شخص پچیس سینٹ دے کر ایک کائنیٹو سکوپ استعمال کر سکتا تھا یعنی اس میں ویڈیو دیکھ سکتا تھا۔

اس ایجاد نے ایڈیسن کو پھر سے امریکہ میں مقبول عام کردیا اور اس کے کاروبار کو بھی چار چاند لگ گئے مگر اب یہاں بھی وہی یہی مسئلہ در آیا پیش آ گیا جو بجلی کے معاملے میں سامنے آیا تھا۔ وہ یہ کہ کیمرہ جیسے اس نے بہتر کر کے بیچنا شروع کر دیا تھا، ویسے ہی اس کا کیمرہ اور کائنٹوسکوپ بھی اس کے کمپیٹیٹرز بہتر کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے۔ جب کوئی کوشش کرتا ہے تو پھر نتیجہ تو آنا ہی ہوتا ہے۔ تو یہ ایک ایسی بات تھی جو ایڈیسن کی کیمرہ ٹیم نے بھی سمجھ لی تھی۔ اس ٹیم نے ایڈیسن کو ایک کام کا مشورہ دیا۔

مشورہ یہ تھا کہ ایک ایسا پروجیکٹر بنایا جائے جس سے بہت سے لوگ ایک ہی وقت میں ویڈیو دیکھ سکیں۔ مگر ایڈیسن کی سوچ اس کےمختلف تھی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ ابھی لوگ کائنیٹو سکوپ میں ویڈیو دیکھنے کیلئے الگ الگ پیسے دیتے ہیں کیونکہ ایک وقت میں ایک ہی شخص کائنیٹو سکوپ کے چھوٹے سے لینز سےآنکھ لگا کر ویڈیو دیکھ سکتا ہے لیکن اگر ویڈیوز بڑی سکرین پر چلنے لگیں تو ایک وقت میں بہت سے لوگ اسے دیکھنے لگیں گے اور اس کا منافع کم ہو جائے گا۔ چنانچہ زیادہ منافعے کے لالچ میں اس نے پروجیکٹر بنانے کے آئیڈئیے کو مسترد کر دیا اور یہیں ایک بار پھر وہ مار کھا گیا۔

کیونکہ کچھ لوگ اسی آئیڈیا پر اسی خیال پر کام کر رہے تھے۔ اورجلد ہی ایسی ڈیوائسز مارکیٹ میں آنے لگیں جنہوں نے کائنیٹوسکوپ کا پیک اپ کروا دیا۔سب سے پہلے تو اٹھارہ سو پچانوے میں دو فرانسیسی سائنسدانوں نے پیرس میں کپڑے کی سکرین پر پروجیکٹر سے ویڈیو دکھا کر تہلکہ مچا دیا۔ اس کے بعد امریکہ میں بھی فینٹو سکوپ کے نام سے ایک پروجیکٹر مارکیٹ میں آ گیا جسے آج پہلی باقاعدہ سینما سکرین سمجھا جاتا ہے۔ اور اس پروجیکٹر کے مقابلے میں ایڈیسن کی کائنیٹو سکوپ کی کوئی اہمیت نہ رہی۔

About admin

Check Also

Why Kurds Don't Have Their Own Country in Urdu p2

Why Kurds Don’t Have Their Own Country in Urdu p2

Why Kurds Don’t Have Their Own Country in Urdu p2 کرد ترکی میں کل آبادی …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

MENU

Stv History