First Anglo-Afghan War part 5

First Anglo-Afghan War part 5

درہ بولان میں بعض جگہوں پر تو چڑھائی اتنی زیادہ تھی کہ جانوروں اور انسانوں کو رسیوں سے باندھ کر اوپر کھینچنا پڑتا تھا۔ تاہم برطانوی فوج نے جیسے تیسے درہ بولان میں پیشقدمی جاری رکھی۔ مگر بلوچ جنگجوؤں نے یہاں بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ قبائلی اس دلیری سے حملے کر رہے تھے کہ اب وہ سویلینز کے ساتھ فوجیوں کو بھی مارنے لگے تھے۔ یہ جنگجو دشوار گزار پہاڑوں میں گھات لگا کر بیٹھے رہتے اور موقع ملتے ہی برطانوی فوجیوں کو نشانہ بناتے اور نکل جاتے۔ انگریز فوجی ان قبائلیوں کو ہٹانے کیلئے بار بار پہاڑوں پر چڑھتے اور ان پر فائرنگ کرتے۔

انگریزوں کی کارروائی پر یہ جنگجو پسپا ہو جاتے لیکن کچھ دیر بعد پھر پلٹ کر آتے اور حملہ کر دیتے۔ ان حملوں میں بہت سے سویلینز اور فوجی مارے گئے۔ بلوچوں نے انگریز فوج کا ڈھیر سارا سامان، اونٹ، گھوڑے اور ہاتھی چھین لئے۔ چھے روز تک مسلسل سفر کے بعد برطانوی فوج گرتے پڑتے درہ بولان سے نکل آئی اور کوئٹہ پہنچ گئی۔ لیکن اس دوران انگریز فوج تیس ہزار اونٹوں میں سے بیس ہزار کھو چکی تھی۔ اسی طرح سینکڑوں سویلینز اور فوجی بھی مارے جا چکے تھے۔ باقی فوج خوراک اور پانی کی کمی کی وجہ سے بری طرح ڈی مورالائز اور بغاوت کے قریب تھی۔

تاہم کوئٹہ کو سامنے دیکھ کر برطانوی فوجیوں کی جان میں جان بہرحال آ گئی۔ کوئٹہ اس وقت پانچ سو گھروں کا چھوٹا سا گوٹھ تھا جس کی آبادی چند ہزار سے زیادہ نہیں تھی۔ یہ ریاست قلات کا حصہ تھا جس کے حکمران میر مہراب اس وقت تک انگریزوں کے اتحادی تھے۔ کوئٹہ پہنچ کر برطانوی فوجیوں کو ٹھنڈا پانی اور گرما گرم کھانا ملا تو ان کا مورال بحال ہونے لگا۔ کچھ عرصے یہاں قیام کے بعد یہ فوجی جنگ کیلئے پھر سے تیار تھے۔ کوئٹہ میں برطانوی فوج نے کچھ دن آرام کیا اور تازہ دم ہو کر اپنا سفر دوبارہ شروع کر لیا۔ اب انہیں درہ خوجک سے گزرنا تھا جو کوئٹہ کو چمن کے راستے قندھار سے ملاتا ہے۔

اٹھارہ سو انتالیس، ایٹین تھرٹی نائن میں اس درے پر کاکڑ قبیلے کا کنٹرول تھا۔ قبیلے کے سردار حاجی خان کاکڑ نے درپردہ شاہ شجاع سے ہاتھ ملا لیا تھا۔ اسی لیے ایک روز سردار حاجی خان یا ان کا کوئی نمائندہ گھوڑسوار برطانوی کیمپ میں آیا اس نے شاہ شجاع سے ملاقات کی اور جاتے ہوئے دس ہزار روپے لے گیا۔ یہ دس ہزار روپے وہ قیمت تھی جو اس لشکر کو درہ خوجک سے بحفاظت گرزنے کے لیے سردار حاجی خان کو پیش کرنا تھی۔ یوں برطانوی فوج بغیر کسی حادثے کے درہ خوجک سے گزر گئی۔

دوستو آپ جانتے ہیں کہ آج درہ بولان اور خوجک پاس میں ریلوے ٹنلز بنی ہیں۔ یہ ریلوے لائنز بعد میں انگریزوں نے اسی لئے بچھائی تھیں کہ دوبارہ اس راستے سے افغانستان پر حملہ کرنا پڑے تو پہلے جیسی مشکلات نہ ہوں۔ انگریز اپنے قبضے والے ہر علاقے میں اسی طرح ریلوے ٹریکس بچھاتے تھے اور ٹیلیگراف کے کھمبے گاڑتے جاتے تھے تا کہ کیمونیکیشن کا نظام بن سکے۔ کلونیئل ہندوستان میں بھی ریلوے لائنز کا جو جال بچھایا گیا تھا وہ بھی انگریز فوجوں کی نقل و حرکت کیلئے تھا نہ کہ عوام کے فائدے کیلئے۔

بہرحال درہ خوجک کو کراس کرنے کے بعد تئیس اپریل، ٹوئنٹی تھرڈ اپریل کو برطانوی فوج قندھار شہر کے باہر کھڑی تھی۔ لیکن قندھار میں ان کا مقابلہ کرنے والا کوئی نہیں تھا کیونکہ مقامی سرداروں کو جیسے ہی علم ہوا تھا کہ حاجی کاکڑ نے انگریز لشکر کو راستہ دے دیا ہے تو وہ سیدھے ایران کی طرف فرار ہو گئے تھے۔ عام شہریوں نے پھر کیا مقابلہ کرنا تھا انھوں نے اپنی جانیں بچانے کے لیے شہر کے دروازے کھول دیئے۔ پچیس اپریل کو جب شاہ شجاع اور انگریز افسر فاتحانہ قندھار میں داخل ہوئے تو ان کے سامنے ایک حیران کن منظر تھا۔

کیا تھا یہ منظر؟ مائے کیوریس فیلوز جب شاہ شجاع اور برطانوی فوجی افسر قندھار میں داخل ہوئے تو شہر کا شہر ان کا استقبال کرنے کیلئے امڈا پڑا تھا۔ گھروں کی بالکونیوں اور چھتوں پر عورتوں کے جھنڈ تھے اور گلیوں میں ہزاروں افغان مرد کھڑے شاہ شجاع کا استقبال کر رہے تھے۔ افغانوں نے برطانوی فوجیوں کے راستے میں پھول بچھائے اور فوجیوں کے لیے کھانے پینے کا سامان لایا گیا۔ یہ منظر دیکھ کر شاہ شجاع اور انگریزوں کو یقین آ گیا کہ افغانستان کو فتح کرنا تو واقعی بہت آسان ہے۔

Part 6

About admin

Check Also

Hazara Wars in Afghanistan p6

Hazara Wars in Afghanistan p6

Hazara Wars in Afghanistan p6 He writes that the Hazara people always sided with foreign …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

MENU

Stv History