First Anglo-Afghan War part 6

First Anglo-Afghan War part 6

لیکن دوستو برطانوی فوجیوں نے ابھی افغانستان میں دیکھا ہی کیا تھا؟ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی تھی۔ کیونکہ افغانستان قبضہ کرنے سے پہلے تھوڑی لڑتا ہے؟ لڑائی تو غیر ملکی قبضے کے بعد شروع ہوتی ہے۔ سو دوستو قندھار پر قبضے کے صرف دو ہفتے بعد انگریزوں کو پہلا جھٹکا لگا۔ ہوا یہ کہ انگریزوں نے قندھار پر قبضے کے بعد شاہ شجاع کو افغانستان کا بادشاہ ڈیکلیئر کر دیا۔ کچھ دن بعد آٹھ مئی کو شاہ شجاع کی بادشاہت بحال ہونے کی خوشی میں انگریزوں نے جشن منایا اور ایک بہت بڑی تقریب منعقد کی۔ شہر کے باہر کھلے میدان میں شہریوں کے بیٹھنے کیلئے ایک بڑا پنڈال سجایا گیا۔

شاہ شجاع اور انگریز افسر بھی میدان میں موجود تھے اور پنڈال سے ہٹ کر ایک اور جگہ سائبان کے نیچے بیٹھے تھے۔ ان کے سامنے برطانوی فوجی دستوں نے پریڈ کی اور شاہ شجاع کو ایک سو ایک، ون ہنڈرڈ ون توپوں کی سلامی دی گئی۔ لیکن اس جشن کو دیکھنے کے لیے بہت ہی کم افغانی آئے۔ شہریوں والا پنڈال تقریب کے آخر تک بھی تقریباً خالی ہی تھا۔ دراصل قندھار کے شہریوں نے اس جشن کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔ انگریز حیران پریشان کھڑے تھے کہ آخر یہ ہوا کیا ہے؟ جن شہریوں نے ہمارا شاندار استقبال کیا تھا وہ کہاں چلے گئے؟

انگریزوں کو بعد میں علم ہوا کہ قندھار میں پہلے روز ان کا استقبال عوام کے وقتی جوش و خروش کا نتیجہ تھا۔ جیسے لوگ ایک نئے پن کا لطف لینے کے لیے جمع ہو جاتے ہیں نئی چیز دیکھ کر لڑائی جھگڑا بھول جاتے ہیں تو کچھ ایسا ہی قندھار کے شہریوں نے پہلے دن کیا تھا۔ ان کی نظر میں یہ ایک نئی عجیب سی فوج ان کے پرانے بادشاہ کے ساتھ آئی تھی، جسے دیکھنے کو وہ جمع ہو گئے تھے۔ لیکن جیسے جیسے وقت گزرا اور انہیں احساس ہوا کہ شاہ شجاع اور انگریز تو انہیں غلام بنانے آئے ہیں تو ان کا جوش و خروش بھی ٹھنڈا پڑ گیا۔

ایسی ان کی سوچ تھی بلکہ انھوں نے جشن کی تقریب کا بائیکاٹ کر کے بتایا کہ وہ انگریزوں اور شاہ شجاع دونوں سے نفرت کرتے ہیں۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ اس ناکام جشنِ فتح کے باوجود شاہ شجاع اور انگریزوں کے حوصلے پست نہیں ہوئے۔ ان کا اگلا ٹارگٹ اب افغانستان کا ایک اور اہم شہر غزنی تھا، جس کے بعد انھیں آخر کار کابل فتح کرنے جانا تھا۔ اس لحاظ سے غزنی، کابل کا دروازہ ہی تھا۔ چنانچہ برطانوی فوج نے غزنی کی طرف پیش قدمی شروع کر دی۔ لیکن دوستو قندھار کے برعکس غزنی ایک سخت جان شہر تھا۔ اسے ایشیا کے مضبوط ترین قلعوں میں سے ایک سمجھا جاتا تھا۔

افغان اسے ناقابلِ تسخیر شہر سمجھتے تھے۔ انگریزوں کے پہنچنے سے پہلے یہاں چھے ہزار سے زائد افغان جنگجو، مقابلے کیلئے موجود تھے۔ اس کے الٹ انگریزوں کو غزنی قلعے کی مضبوطی کا کوئی اندازہ ہی نہیں تھا۔ اس لئے وہ اپنی چار بھاری توپیں جو اس قلعے کی دیواریں توڑ سکتی تھیں، انہیں قندھار میں ہی چھوڑ آئے۔ جولائی اٹھارہ سو انتالیس، ایٹین تھرٹی نائن میں انگریزوں نے غزنی کا محاصرہ کیا۔ لیکن جب انہوں نے قلعے پر بمباری شروع کی تو انہیں اندازہ ہوا کہ جو ہلکی توپیں وہ ساتھ لائے تھے وہ ان مضبوط دیواروں کو توڑنے کیلئے ناکافی تھیں۔

دوسری طرف افغان فوجی قلعے کی دیواروں پر بے خوف کھڑے تھے اور اپنی بندوقوں سے انگریزوں کو نشانہ بنا رہے تھے۔ افغان جنگجوؤں کے پاس لمبی نال والی ایک خاص بندوق تھی جسے جزایل کہا جاتا تھا۔ یہ بندوق مقامی سطح پر ہی تیار ہوتی تھی اور اس کی رینج کہا جاتا ہے کہ ایک کلومیٹر کے قریب تھی۔ جو بھی انگریز فوجی قلعے کی د یواروں کے قریب جانے کی کوشش کرتا تو جزایل گنز کا نشانہ بن جاتا۔

افغان سپاہی اس قدر بے خوف ہو چکے تھے کہ ان کے ایک دستے نے قلعے سے باہر آ کر شاہ شجاع جو کہ انگریزی فوج کے ساتھ تھے انہیں قتل کرنے کی کوشش بھی کی۔ انگریزوں نے اس دستے کو شکست دے دی۔ پچاس افغان سپاہیوں کو قیدی بنا کر انگریزی کیمپ میں لایا گیا جہاں شاہ شجاع نے انہیں قتل کروا دیا۔ لیکن ان سپاہیوں کی ہلاکت افغانوں کے حوصلے پست کرنے والی ہرگز نہیں تھی۔ وہ ہتھیار ڈالنے پر کسی صورت تیار نہیں تھے۔

Part 7

About admin

Check Also

Hazara Wars in Afghanistan p6

Hazara Wars in Afghanistan p6

Hazara Wars in Afghanistan p6 He writes that the Hazara people always sided with foreign …

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

MENU

Stv History